سندھ میں سستا آٹا اسکیم بدنظمی کا شکار‘ شہری پریشان 

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت سندھ کی جانب سے رمضان المبارک میں 10 روپے فی کلوآٹا فروخت کرنے کیلئے کراچی سمیت سندھ بھر میں سستا آٹااسکیم کے آغاز پر شہریوں کوبدنظمی کے باعث شدیددشواری کا سامناکرنا پڑا جبکہ کئی مقررہ مقامات پر سستے آٹے کے اسٹالزکانام و نشان تک نہیں۔سندھ حکومت نے اعلان کیاتھا کہ صوبے بھر میں عوام کوریلیف پہنچانے کیلئے رمضان المبارک میں کراچی کے مقررہ200سے زائد مقامات پرآٹا10 روپے کلوفروخت کیا جائے گاتاہم یکم رمضان المبارک کوہی یہ اسکیم بد نظمی کا شکار ہوگئی۔کراچی کے مختلف مقامات پر مستقل اسٹالز لگانے کے بجائے ٹرکوں سے آٹا فروخت کیا گیاجس کی وجہ سے لوگوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔انتظامیہ کی جانب سے ایک فرد کو10کلو آٹے کا ایک تھیلا 100روپے میں فروخت کیاگیاتاہم شہریوں نے شکایت کی کہ پولیس اہلکارزور زبردستی سے کئی تھیلے خریدتے رہے۔سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ آٹے کی مختلف ملوں کے باہر بھی سستے داموں آٹا فروخت کرنے کے اسٹالز لگائے جائیں گے جہاں سے شہری آٹا خرید سکیں گے لیکن کراچی میں فلور ملز کے آگے اسٹالز نہیں لگائے گئے۔یوٹیلٹی اسٹور کے متعدد فرنچائز پر بھی آٹا پرانے نرخوںہی فروخت کیا جا رہا ہے ‘مالکان کا کہنا ہے کہ اسکیم کے تحت ابھی تک آٹا فراہم نہیں کیا گیا۔

کرپشن

ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی تازہ سروے رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں 179ممالک کے سروے کئے گئے گذشتہ تقریباً10سال سے دیکھ رہا ہوں کہ ڈنمارک، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، سنگاپور، سویڈن، آئس لینڈ، نیدر لینڈ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، ناروے مسلسل ہر سال کبھی کوئی پہلا نمبر حاصل کر لیتا ہے اور کوئی بھی ملک دوسے، تیسرے یا دسویں نمبر پر آجاتا ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ کہا وجہ ہے کہ ؟ ان ممالک میں کرپش یا مکر و فریب جگہ نہیں بنا پاتا؟ کیا وجہ ہے کہ گذشتہ 10برسوں سے یہ ممالک کرپن سے پاک ٹاپ 10ممالک ہیں قارئین کرام اس کی گواہی دینے میں مجھے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کیونکہ 1984میں 15ماہ ڈنمارک میں بسر کئے اور 16سال سے امریکا میں مقیم ہوں یہ حقیقت ہے کہ ڈنمارک کی معیار زندگی امریکا کے مقابلے میں کئی درجہ بہتر ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں جمہوریت کی جڑیں مظبوط ہیں غربت کا جھونکا کبھی ان ممالک کے قریب سے نہیں گذرا ان ممالک میں جو مسائل عام لوگوں کی زندگی میں آتے ہیں اسے آسانی سے انگلی پر گن سکتے ہین یہ مسائل بھی زیادہ وسائل کی وجہ سے ان خود ساختہ بنائے ہوئے ہیں بے روز گاری کس چیز کا نام ہے؟ اصل میں ہر معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خود کام کرنا نہیں چاہتے ان ممالک میں ایسے بے کار لوگوں کو حکومت ہر ماہ بے روزگاری الاؤنس کے نام پر اچھی خاصی رقم ادا کرتی ہے جو یہ زیادہ تر نشے اور دوسرے غیر ضروری مشاغل میں اڑا دیتے ہیں میڈیکل انشورنس 100%ان ممالک میں حکومت کی جانب سے ہوتی ہے مختصر یہ کہ دنیا میں یہ ممالک دنیا کی جنت ہیں۔ 
ان آئیں ایک نظر امریکا پر ڈالتے ہیں اگر مذکورہ 10ممالک سے امریکا کا موازنہ کیا جائے تو واضح فرق نظر آئیگا اس وقت امریکا میں تقریباً 44ملین امریکن شہری میڈیکل انشورنس سے محروم ہیں امریکا میں بے روزگاری الاؤنس صرف6ماہ تک دیا جاتا ہے یہ قانون سابق صر بل کلنٹن نے بنایا تھا امریکا دنیا میں واحد سپر پاور ہے مگر اس میں میں مسائل کی بھر مار بش انتظامیہ کے دور میں سامنے آئی 9/11نے امریکا کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا کہ انغانستان اور عراق کی جنگوں کے علاوہ عالمی سطح پر دھشت گردی کے خلاف جنگ نے کیا امریکا کا شمار 179ممالک مٰں کرپشن کے نقطہ نظر سے 20ویں نمبر پر ہے جبکہ برطانیہ 12ویں نمبر پر اور اسرائیل 30ویں نمبر پر ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ انڈیا 72نمبر پر ہے اس سروے کو دیکھنے کے بعد دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ آخر پاکستان کا شمار گذشتہ 10سال سے ہیٹی۔منیامار، سوڈان، کانغو ڈیموکریٹک ریپبلک، عراق، کمبوڈیا، بنگلہ دیش، انگولا، اور گمبیا کے ساتھ کیوں کیا جاتا ہے؟ پاکستان ایٹمی طاقت ہے دھشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے شانہ بشانہ ہے پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان 179مملاک میں 138نمبر پر کرپٹ ملک ہے آخر اسکا ذمہ دار کون ہے؟ کہا حکومت جو حقیقی جمہوریت قائم ہونے نہیں دیتی؟ کیا اسکی یہ وجہ تو نہیں کہ کرپٹ سیاستدانوں کو معاف کر دیا جاتا ہے؟ کیا یہ وجہ تو نہیں ہے کہ پاکستان میں حکمران، مشیر اور اعلیٰ عہدیدار لش پش اسٹائل سے رہتے ہیں بلٹ پروف کاریں رکھتے ہیں؟ جبکہ انکی ناک کے نیچے 40فیصد کے قریب لوگ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ 
لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں، مہنگائی کے بوجھ نے لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، صفائی نہ ہونے کے باعث ڈنگی جیسے خطرناک وائرس معصوم لوگوں کو زندہ رہنے نہیں دے رہے مگر ان بنیادوں پر پاکستان کو دنیا کے انتہائی پسماندہ ممالک میں لا کھڑا کر کے انہتائی کرپٹ ملک قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ سراسر امتیازی سلوک ہے پاکستان کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ امریکا جس نے اقوام متحدہ کے قوانین کو پارہ پارہ کر کے عراق پر حملہ کی جس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں عراقی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لاکھوں اپاہج ہو گئے امریکی فوج کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نے کہا کہ عراق جنگ امریکا کے لئے ڈرائنا خواب ہے جس کا اختتام بظاہر ہوتے نظر نہیں آرہا انھوں نے کہا کہ عراق پر حملے کا فیصلہ کرنے والی امریکی قیادت نااہل، طاقت کے نشے میں چور ہے انھوں نے کہا کہ امریکن حکومت طاقت کا ناجائز مظاہرہ کر رہی ہے امریکی انتظامیہ کانگریس بالخصوص دفتر خارجہ، خفیہ اداروں کو عراق جنگ کی موجودہ صورتحال میں جو ہر زاویے سے ناکامی کی جانب جا رہی ہے اپنی اپنی ذمہ داری قبول کرنا چاہئے اور امریکی عوام کو ان تمام اداروں کا احتساب کرنا چاہئے اس سے پہلے کولن پاول جیسی شخصیت نے امریکن پالیسی پر نکتہ چینی کر کے استعفیٰ دے دیا تھا ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا گیا جس کی وجہ سے سابق وزیر دفاع رمسفیلڈ کو رخصت لینی پڑی بش انتظامیہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں نے بش انتظامیہ کو اسلئے چھوڑ دیا کہ عراق پر حملے اور سابق صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے کا منصوبہ آغاز سے ہیں خامیوں سے بھر پور تھا بش انتظامیہ عراق میں پرائیویٹ سیکیورٹی کے ہاتھوں سینکڑوں معصوم نہتے عراقیوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کر رہی ہے مگر ابھی تک کسی کو سزا نہیں دی گئی دراقی حکومت نے ان پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیوں کو عراق چھوڑنے کے احکامات جاری کئے ہیں مگر وہ چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ 
امریکا نے جب افغانستان پر چڑھائی کی تھی اس وقت بھی درجنوں سکول، مساجد اور شہری ٹھکانوں پر گولہ باری کی گئی تھی جس کے نتیجے میں سینکڑوں، ہزاروں معصوم شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ان تمام صورتحال کے بعد بھی ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل نے امریکا کو 20ویں نمبر پر لاکر کرپٹ ملک کی لسٹ سے باہر نکال دیا۔ اب آیئے اسرائیل پر نظر ڈالتے ہیں جو ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی نظر میں کرپٹ ملک نہیں ہے اسرئیل نے 1948سے اب تک اقوام متحدہ کی 144قراردادوں کو پاؤں تلے روند ڈالا عالمی برادری کی ناک کے نیچے ہزاروں فلسطینیوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا سینکڑوں بے گناہ فلسطینی اپنے ناکردہ گناہ کی پاداش میں جیلوں میں اسرائیلی مظالم کا شکار ہو رہے ہیں اسرائیل میں خوشخالی اسلئے ہے کہ امریکا سے اسے ہر سال 3بلین سے زیادہ امداد ملتی ہے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے تحقیقی ادارے کی طرف سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل بہت جلد غزہ کی پٹی میں زیر زمین سرنگوں کے خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی تیاری کر چکا ہے اسرائیل کے ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں واقع سرنگوں کے ذریعہ حماس جدید ہتھیار اسمگل کر رہی ہے اور یہ ہتھیار حماس کے رضا کاروں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں جبکہ گذشتہ دنوں واشنگٹن میں امریکا اور اسرئیل کے بیچ ایک اور اہم دس سالہ دفاعی معاہدہ پر دستخط کئے گئے ہیں جس کے مطابق امریکا ہر سال اسرئیل کو 3بلین ڈالرز کا اسلحہ اور جدید دفاعی سامان فراہم کریگا یہ امداد دیگر معاہدہ کے علاوہ ہے جو اسرائیل پہلے ہی حاصل کر رہا ہے اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ چونکہ خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور عدم استحکام کی وجہ اسرائیل کی دفاع کو بہتر بنانے کیلئے اس نوعیت کا معاہدہ ضروری تھا۔ حالانکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اسرائیل ہر قسم کی جدید اسلحہ کی تیاری میں خود کفیل ہے اسرائیل ہر سال 10بلین ڈالرز سے زائد مالیت کا اسلحہ فروخت کرتا ہے حال ہی میں اسرائیل نے بھارت کو 2بلین ڈالرز کی مالیت کا جدید دفاعی سازو سامان فراہم کیا یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسرائیل کے پاس 200سے زائد ایٹم بم موجود ہیں اس کے علاوہ مختلف باوثوق ذرائع گذشتہ ایک عرصے سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسرائیل نے 1960میں مہلک ترین حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری شروع کر دی تھی اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے جینیوا پروٹوکول سمیت کسی بھی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں جس سے اسکی اسلحہ سازی پر پابندی عائد ہونے کا خدشہ ہو۔ 
اصل حقیقیت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اسوقت واحد طاقت ہے جس کے پاس جدید اسلحہ، ایٹم بم اور مہلک ہتھیار موجود ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑی طاقتون کے پروں کے نیچے اسرائیل عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے اسکے باوجود ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل نے اسرائیل کو اپنی لسٹ میں 30ویں نمبر پرک رکھتے ہوئے کرپشن سے پاک ملک قرار دیا ہے انڈیا کو 72ویں نمبر پر اسلئے رکھا گیا کہ اسکی اسرائیل اور امریکہ سے اچھے تعلقات ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کا آخر کیا معیار ہے؟ جس کی بنیادوں پر وہ کسی ملک کو کرپٹ قرار دے ان رپورٹوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے جو ترقی پذیر ممالک ہیں جن کے پاس جدید اسلحہ ہے جو دنیا میں جنگوں کی بنیاد ڈالتے ہیں جو بے گناہوں اور معصوموں کو کھلے عام ہلاک کرتے ہیں وہ کرپشن سے پاک ہیں جبکہ اسکے برعکس پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک جو اپنی دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی لسٹ میں کرپٹ شمار کئے جاتے ہیں اس تنظیم کو حقائق اور سچائی سے کام لینا چاہئیے حقائق پر پردہ نہیں ڈالنا چاہئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی رپورٹ جانبداری پر مبنی ہے اگر یہ تنظیم بڑی طاقتوں کی امداد پر چل رہی ہے تو یہ تنظیم کبھی بھی غیر جانبدارانہ رپورٹ پیش نہیں کر سکتی یہ بھی ایک کرپش کی بہت بڑی مثال ہے۔

رشوت و بدعنوانی پاکستانی معیشت کے لیے سنگین خطرہ


ایک دور تھا جب راشی اور بدعنوان افراد کو ہمارے معاشرے میں نہایت بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ایسے افراد سے میل ملاپ سے گریز کیا جاتا تھا‘ لوگ ان کے گھروں میں کھانا نہیں کھاتے تھے۔ بدعنوان افراد معاشرے سے کٹ کر تنہائی کا شکار رہتے تھے۔ انہیں معاشرے میں کوئی عزت نہیں دیتا تھا۔ رفتہ رفتہ ہمارے معاشرے سے اخلاقی قدروں کا صفایا ہوتا گیا۔ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، سول اور ملٹری اہلکاروں میں بدعنوانی کا تناسب بڑھتا گیا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہونے لگا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ریلوی، واپڈا، اسٹیل مل، پی آئی اے سمیت حکومت کے تمام اداروں کو کرپشن اور اقربا پروری کی دیمک چاٹ گئی ہے۔ راشی افراد اب معاشرے کے ”معززین“ میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ کرپٹ اور بدعنوان عناصر ہماری سیاست، معیشت اور تعلیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ حال ہی میں جسٹس بھگوان داس اور نیب کی منظرعام پر آنے والی رپورٹوں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سروے رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بدعنوانی کس بری طرح سے ہمارے معاشرے میں سرایت کرگئی ہے۔ جسٹس بھگوان داس اور نیب کی رپورٹ کے مطابق آئل انڈسٹری اور حکومتی عناصر کی ملی بھگت نے قومی خزانے کو 83 ارب روپے کی رقم سے محروم کردیا۔ نیب کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) شاہد عزیز نے سابق صدر پرویزمشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں جون 2001ءسے جون 2006ءتک پٹرولیم قیمتوں کے میکنزم میں سنگین بدعنوانیوں کا ذکر تھا۔ صدر پرویزمشرف جو اپنی تقریروں میں اکثر نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ذکر کرتے نہیں تھکتے تھے‘ جب ان کی اپنی حکومت کے ذمہ داران کے متعلق کرپشن کی رپورٹ انہیں پیش کی گئی تو حیرت انگیز طور پر نہ صرف انہوں نے بدعنوان عناصر کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کیا‘ بلکہ الٹا جنرل (ر) شاہد عزیز کو نیب کی سربراہی سے سبکدوش کردیا گیا۔ نیب کی رپورٹ بعد ازاں جسٹس بھگوان داس کو پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں اس بات کا انکشاف تھا کہ پاکستان اسٹیٹ آئل اور حکومتی ذمہ داروں کی ملی بھگت سے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی درآمد اور فروخت میں جعل سازی اور سنگین بدعنوانیاں کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ نے جون 2001ءمیں آئل کمپنیز مشاورتی کمیٹی کو تیل کی قیمتوں کے تعین کی ذمہ داری سونپی تھی۔ قیمتوں کے تعین کا یہ سلسلہ نہایت غیر شفاف اور بدعنوانیوں سے بھرپور تھا۔ شدید بدعنوانیوں اور ملی بھگت کے نتیجے میں جہاں ایک طرف عوام کو شدید مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنا پڑا وہیں دوسری جانب آئل کمپنیوں شیل پاکستان، کالٹیکس اور پی ایس او کے منافعوں میں آسمانی شرح سے اضافہ ہوا۔ 2001ءسے 2005ءتک شیل پاکستان کے منافع میں 232 فیصد، کالٹیکس 281 فیصد اور پی ایس او کے منافع میں 232 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سے بھی بڑھ کر اٹک ریفائنری کے منافع میں 4331 فیصد، نیشنل ریفائنری کے منافع میں 3578فیصد، پارکو کے منافع میں 1717فیصد کا بلند ترین اضافہ ہوا۔ پٹرولیم کی قیمتوں کے فارمولے کی بدولت ملکی خزانے کو 11ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ 34ارب روپے کا نقصان پریمیئم میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ وزارت پٹرولیم آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلر کے بے تحاشا منافع کو روکنے میں ناکام رہی۔ وزارت پٹرولیم کی غفلت اور عدم توجہی نے 2004ءاور 2006ءکے درمیان آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز کو 9 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا۔ آئل کمپنیز مشاورتی کمیٹی نے حکومت کے ٹیکسوں خاص طور پر 15فیصد جنرل سیلز ٹیکس پر بھی کمیشن وصول کیا جس کی بدولت آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو 18ارب روپے کا فائدہ ہوا۔ اس ضمن میں عوامی اور قومی مفاد کو اس حد تک نظرانداز کیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ 40 فیصد منافع کی حد ختم کردی گئی جس سے حکومتی خزانے کو 16ارب روپے کا نقصان ہوا۔ رشوت اور بدعنوانی پاکستان میں اس حد تک عروج پر ہے کہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں اس میں 400 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پولیس کا محکمہ سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے جبکہ پاور سیکٹر دوسرے نمبر پر ہے‘ عدلیہ کو تیسرے نمبر پر کرپٹ ترین ادارہ سمجھا جاتا تھا‘ تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اقدامات کی وجہ سے عدلیہ کا امیج بہت بہتر ہوا ہے اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑی حد تک بحال ہوا ہے۔2009ءمیں عدلیہ کا کرپٹ ترین اداروں میں 9واں نمبر ہے‘ امید ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدلیہ بدعنوان عناصر سے نجات حاصل کرلے گی۔ پاکستان میں ایک عام متوسط آمدنی کے حامل شخص کو سالانہ اوسطاً 9428 روپے رشوت دینی پڑتی ہے۔ رشوت اور بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2009ءمیں ”قومی بدعنوانی تصورات“ پر ایک سروے کرایا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب اور بلوچستان میں رشوت میں کمی آئی ہے جبکہ سندھ میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کے علاوہ صوبہ سرحد میں بھی بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ صوبہ سرحد میں کرپشن میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سندھ میں 5 فیصد‘ پنجاب میں 9 فیصد جبکہ بلوچستان میں کرپشن میں 10فیصد کمی ہوئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق این آر او نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بلکہ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بدعنوانی 2007ءکی بھی خلاف ورزی ہے۔ ادارے کے مطابق این آر او نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج خراب کیا ہے۔ قومی اسمبلی 41کمیٹیاں بنا چکی ہے لیکن گزشتہ 17ماہ سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی برائے اخلاقیات اور صوبائی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے اخلاقیات قائم نہیں کی گئیں۔ بدعنوانی اور کرپشن ایسا کینسر ہے جس نے پاکستانی معاشرے سے دیانت، حب الوطنی، خدا خوفی کا اگر خاتمہ نہیں کیا تو اسے بے حد کمزور ضرور کردیا ہے۔ بدعنوانی اور رشوت سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور اس کی تصدیق ورلڈ بینک کی رپورٹ نے بھی کی ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح میں کمی اور بڑھتی ہوئی غربت کا ایک اہم سبب رشوت اور بدعنوانی بھی ہے۔ حکومت کو ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں‘ کیونکہ شفاف نظام ہی ملک میں معاشی استحکام، خوشحالی اور ترقی لاسکتا ہے۔ کرپٹ اور بدعنوان نظام کی موجودگی میں معاشی ترقی‘ اقتصادی خوشحالی اور خودکفالت کا حصول محض ایک خواب ہی رہے گا۔

جلوزئی کیمپ میں ہزاروں فرضی خیموں کا انکشاف

نوشہرہ ( اے پی پی )جلوزئی متاثرین کیمپ میں ہزاروں فرضی خیموں کا انکشاف‘ کیمپ انتظامیہ اور پاک فوج کا کریک ڈاﺅن‘ ہزاروں فرضی خیمے اکھاڑ کر اپنے قبضے میں لے لیے‘ اسکریننگ کے دوران 5048 فرضی متاثرہ خاندانوں کا انکشاف‘ فرضی خیمہ بستی کو 10 دن کی مہلت دے دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق جلوزئی کیمپ کے انچارج ظاہر شاہ نے بتایا کہ خار‘ ناواگئی‘ مامومند کے علاقے کلیئر ہو نے کے بعد کیمپ انتظامیہ اور پولیٹیکل حکام نے متاثرین کو واپس جانے کو کہا جس پر متاثرین نے عیدالفطر تک جانے سے انکار کردیا جس پر کیمپ انتظامیہ نے فوج کے ساتھ مل کر کیمپ کی اسکریننگ شروع کر دی جس میں تقریباً 4 ہزار سے زائد گھوسٹ خیموں کا انکشاف ہوا ۔ معلوم ہوا ہے کہ عرصہ 25‘ 30 سال پہلے باجوڑ سے نوشہرہ مردان اور کراچی محنت مزدوری کے لیے جانے والوں نے آپریشن راہ راست کا فائدہ اٹھا کر رجسٹریشن کرا لی ۔ اسپیشل سپورٹ گروپ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل راشد نے میڈیا کو بتایا کہ کیمپ انچارج شہزاد علی بخاری‘ میجر عارف اللہ داد درانی کی قیادت میں کیمپ ون اور فامیلو کیمپ کی اسکریننگ کرائی گئی فیز ون سے فیز 11 تک صرف 5448 خاندان موجود ہیں اور باقی حیران کن بات یہ ہے کہ کسی نے خیمے کرائے پر دیے ہیں اور کسی نے فرضی قبضہ جما رکھا ہے ۔ بیشتر کیمپ سے باہر اپنی پرانی رہائش گاہوں میں موجود ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق 9 ہزار سے زیادہ خاندان کیمپ سے الاﺅنس اور دیگر مراعات حاصل کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں جب متاثرین سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ شدید گرمی کی وجہ سے وہ خیمہ بستی میں نہیں رہ سکتے اور انہوں نے مکانات کرائے پر لے رکھے ہیں ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اور کیمپ انتظامیہ نے دوغلی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ متاثرین سوات کے لیے ٹھنڈا پانی اور بجلی اور ہر قسم کی مراعات موجود ہیں جبکہ متاثرین باجوڑ اور مہمند کے لیے 11 ماہ میں نہ بجلی فراہم کی گئی اور نہ ہی کوئی خوراک جبکہ بیت المال کے کارڈ میں سوراخ کیے گئے لیکن ہزاروں متاثرین کو چیک نہیں دیے گئے ۔ انہوں نے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بیت المال کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ متاثرین نے احتجاج کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ نادرا نے ابھی تک ان کے خاندانوں کی تصدیق نہیں کی اس لیے انہیں 25 ہزار کے ویزا کارڈ کی رقم نہیں ملی اور ماہانہ راشن کارڈ بھی نہیں ملا وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں ان کے ساتھ یہ رویہ کیوں اپنایا گیا ہے۔


اے اللہ… ہم جینے کے لائق نہیں
مکرمی! غازی آباد کمہارہ پور کے مین بازار میں جو اندوہناک واقعہ ہوا۔ اس کو پڑھ کر میں عجیب کیفیت سے دوچار ہوں۔ مملکت خداداد پاکستان جسے کلمہ ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پہ حاصل کیا گیا تھا جسے عالم اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے‘ جو واحد اسلامی ایٹمی طاقت کا وجود رکھتا ہے‘ جہاں پر سترہ کروڑ آبادی ہے۔ اسی مسلمانوں کے شہر لاہور کے ایک مسلمان آبادی والے علاقے ’’غازی آباد‘‘ میں کس طرح چند شیطان صفت بھیڑیوں نے دن دیہاڑے دندناتے گلی نمبر 19 میں واقع ایک گھر سے باعفت بچی کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکالا اور بیچ بازار میں لا کر اُس کے کپڑے نوچ ڈالتے ہوئے دو گھنٹے تک اس قدر بہیمانہ تشدد کیا گیا کہ وہ معصوم اپنے ہی خون میں نہا گئی۔ اس کا بھائی جو اسے بچانے کے لئے چیختا چلاتا ساتھ باہر نکلا کس طرح آخری وقت تک اپنی بہن کو بچانے کے لئے ان درندوں سے لڑتا رھا، اس کے برہنہ جسم کو ڈھانپنے اور بچانے کے لئے اپنے جسم کو ڈھال بناتا رھا… مگر وہ ہار گیا… اور اس کی بہن حسرت ویاس کی تصویر بنے قبر میں جاسوئی۔ آہ… ہم نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے والے مسلمان… حکومت، انتظامیہ اور سیاست دانوں کو چھوڑ دیں کہ سب کے سب ہمارے ہی اعمال کی ’’جزا‘‘ ہیں وگرنہ ڈبل تنخواہوں والی پولیس جو احتجاجی جلوسوں پر نہتے بوڑھوں اور خواتین تک کو نہیں بخشتی، وہاں پہنچ جاتی۔ پورے محلے اور بازار میں سے کسی ایک غیرت مند نے بھی آگے بڑھ کر ان شیطان صفت درندوں کو روکنے کی کوشش نہ کی… وہ معصوم کتنا روئی، چیخی چلائی ہوگی مگر سب بے جان لاشوں میں اپنی پراگندہ روحیں لئے یہ تماشا دیکھتے رہے… افسوس… صد افسوس… مجھے رونا آ رہا ہے۔ کاش وہاں موجود یا گھروں میں دبکے لوگوں کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ شعور مل جاتا کہ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ یہ کیسی بیٹی تھی…؟ کس کی بیٹی تھی…؟ جسے یوں سرعام بیچ بازار رسوا کردیا گیا اور سب بے حسی کا نشان بن کر رہ گئے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا، مار دئیے جاتے۔ تو کیا…؟ موت تو ویسے بھی ایک دن آکر رہے گی لیکن بہنوں، بیٹیوں کی عزت وناموس پر قربان ہونے والے تو خوش نصیب ہوتے ہیں۔ قوموں کا فخر ہوتے ہیں…مگر نہیں، ہم قوم کہاں رہ گئے …لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی جھوٹ، ضمیر فروشی، فحاشی، عریانیت کا زہر سب کو سن کرچکا ہے۔ ہم تو بس بے حس رینگتے کینچوؤں کا مجموعہ ہیں… بس مجموعہ۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ ’’اے اللہ ہم تیری زمین پر جینے کے لائق نہیں‘‘(شبر علی چنگیزی، 0333-3636499)

 
مغوی فرانسیسی سیاح رہا 
 
بلوچستان اسلامی انتہاپسندی کے علاوہ بلوچ عسکریت پسندی کی لپیٹ میں بھی ہے
پاکستان میں تین مہینے قبل اغوا کئے گئے ایک فرانسیسی سیاح کو جمعہ کے دن بلوچستان میں ایک نامعلوم مقام سے رہا کردیا گیا ہے۔ اس فرانسیسی سیاح کو 23 مئی کو کوئٹہ کے نواح میں ایران کے ساتھ سرحد کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا۔
 

پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق انتونیو سپرسیلیا نامی اس غیر ملکی کو مبینہ طور پر جرائم پیشہ عناصر نے دالبدین کے علاقے تالولانڈی سے اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ اپنے چند ساتھی سیاحوں کے ساتھ کوئٹہ سے فراسیسی نمبر پلیٹ والی ایک گاڑی میں ایران کی سرحد کی طرف سفر پر تھا۔ اِس سیاح کے ساتھ سفر کرنے والوں میں تین مرد، دو عورتیں اور دو بچے بھی شامل تھے، تاہم انہیں اغوا نہیں پاک ایران بارڈر سے کوئٹہ جانے والی سڑک
کیا گیا تھا۔

ایک سیکیورٹی افسر کے مطابق اس 41 سالہ مغوی سیاح کی بازیابی کے لئے حکومت نے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور حساس اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی تھی، کیونکہ غالب امکان یہی تھا کہ اغوا کی اس واردات میں بلوچ عسکریت پسند یا پھر ممکنہ طور پر اسلامی انتہاپسند بھی ملوث ہوسکتے تھے۔

کوئٹہ میں حکام کے مطابق اس فرانسیسی شہری کو بہت جلد اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے کے حوالے کردیا جائے گا۔ فراسیسی سفارت خانے کی طرف سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان کو مغربی ممالک کے سفارت خانے اپنے شہریوں کے لئے بہت خطرناک ملک سمجھتے ہیں اور وہ اکثر انہیں پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں سیاحت نہ کرنے کی تلقین بھی کرتے رہے ہیں۔

 
مغوی فرانسیسی سیاح رہا 
 
بلوچستان اسلامی انتہاپسندی کے علاوہ بلوچ عسکریت پسندی کی لپیٹ میں بھی ہے
پاکستان میں تین مہینے قبل اغوا کئے گئے ایک فرانسیسی سیاح کو جمعہ کے دن بلوچستان میں ایک نامعلوم مقام سے رہا کردیا گیا ہے۔ اس فرانسیسی سیاح کو 23 مئی کو کوئٹہ کے نواح میں ایران کے ساتھ سرحد کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا۔
 

پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق انتونیو سپرسیلیا نامی اس غیر ملکی کو مبینہ طور پر جرائم پیشہ عناصر نے دالبدین کے علاقے تالولانڈی سے اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ اپنے چند ساتھی سیاحوں کے ساتھ کوئٹہ سے فراسیسی نمبر پلیٹ والی ایک گاڑی میں ایران کی سرحد کی طرف سفر پر تھا۔ اِس سیاح کے ساتھ سفر کرنے والوں میں تین مرد، دو عورتیں اور دو بچے بھی شامل تھے، تاہم انہیں اغوا نہیں پاک ایران بارڈر سے کوئٹہ جانے والی سڑک
کیا گیا تھا۔

ایک سیکیورٹی افسر کے مطابق اس 41 سالہ مغوی سیاح کی بازیابی کے لئے حکومت نے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور حساس اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی تھی، کیونکہ غالب امکان یہی تھا کہ اغوا کی اس واردات میں بلوچ عسکریت پسند یا پھر ممکنہ طور پر اسلامی انتہاپسند بھی ملوث ہوسکتے تھے۔

کوئٹہ میں حکام کے مطابق اس فرانسیسی شہری کو بہت جلد اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے کے حوالے کردیا جائے گا۔ فراسیسی سفارت خانے کی طرف سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان کو مغربی ممالک کے سفارت خانے اپنے شہریوں کے لئے بہت خطرناک ملک سمجھتے ہیں اور وہ اکثر انہیں پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں سیاحت نہ کرنے کی تلقین بھی کرتے رہے ہیں۔

کرائے کے بجلی گھروں کی منظوری

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 1500میگاواٹ کے چار بجلی گھر لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ اس فیصلے کو جائز قرار دیتے ہوئے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے کرائے کے بجلی گھر ہی واحد حل ہیں، اس لیے کہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے 8 سے 10سال درکار ہیں، کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے 6 سال اور تیل سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کی تعمیر کے لیے 3سال کا عرصہ درکار ہے۔ کرائے کے بجلی گھروں س¿ بجلی حاصل کرنے کے لیے صارفین پر 6 فیصد مزید بوجھ پڑ جائے گا۔ ملک میں بجلی کے بحران کے حل کے لیے موجودہ حکومت کی جانب سے کرائے کے بجلی گھر کی تجویز پر سخت تنقید کی گئی تھی لیکن حکومت نے اس تنقید کا نوٹس لیے بغیر کرائے کے بجلی گھروں کا سودا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران اس مسئلے کو حل کرنے کی نیت بھی نہیں رکھتے اور اس کی اہلیت بھی ان میں نہیں ہے۔ اس طرح کے فیصلے یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے فیصلہ ساز حکمران طبقات کا ملک و قوم سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ہم اس سے پہلے بھی یہ لکھ چکے ہیں کہ ایران سے بجلی کی فراہمی کا معاہدہ ہوسکتا ہی، اس کی پیش کش بھی سامنے آچکی ہے‘ لیکن امریکا اور عالمی مالیاتی ادارے کوئی ایسا کام کرنے کو تیار نہیں ہیں جس سے پاکستان اقتصادی طور پر مستحکم ہو اور آزادانہ فیصلے کرسکے۔ یہ سلسلہ معین قریشی کے زمانے سے جاری ہے۔ بے نظیر بھٹو کی گزشتہ حکومت میں نجی بجلی گھروں کی تعمیر اور غیر ملکی کرنسی میں مہنگی بجلی کے سودے نے پاکستان میں توانائی کا بحران پیدا کیا ہے۔ اب کرائے کے بجلی گھر کے مہنگے منصوبے کے ذریعے صرف اور صرف بجلی کے نرخوں میں اضافہ مقصود ہے۔

سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں جعلسازی کا انکشاف

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) سندھ پبلک سروس کمیشن کے سال 2003ءکے امتحانات میں بڑے پیمانے پر جعلسازی کا انکشاف ہوا ہے جہاں کامیاب امیدواروں کی جگہ کمیشن کے عہدیداران اور سرکاری افسران کے قریبی رشتہ داروں کو فائنل رزلٹ میں ٹیمپرنگ کرکے کامیاب قرار دے دیا گیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے سال 2003ءمیں مقابلے کے امتحانات میں گریڈ 16 اور17 کے لیے 2555 امیدواروں نے شرکت کی تھی جس میں 531 امیدوار تحریری امتحان میں پاس ہوئے اور انٹرویو کے بعد کل 77 امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا۔ کامیاب نہ ہونے والے ایک نوجوان سلیم شیخ نے سندھ ہائی کورٹ میں کمیشن کے نتائج کو چیلنج کرتے ہوئے اس عمل میں بدعنوانی کے خلاف درخواست دائر کی جس کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کی جانب سے معاملے کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی کمیٹی قائم کی گئی۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی نے اپنی تحقیقات اور کاپیوں کی دوبارہ چیکنگ کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ 77 کامیاب امیدواروں میں کئی امیدوار مقابلے کے امتحان میں فیل ہیں لیکن ان کی کاپیوں میں ٹیمپرنگ کرکے انہیں کامیاب کیا گیا ہے جبکہ 2 امیدواروں آیان مصطفی بھٹو اور ڈاکٹر نثار اے لغاری کی کاپیاں غائب ہیں۔ رزلٹ میں بڑے پیمانے پر ٹیمپرنگ کے بعد فیل ہونے والے امیدواروں کو کامیاب قرار دیاگیا، پاس ہونے والے اس بیج میں بڑی تعداد سرکاری افسران کے بچوں کی ہے۔ اس پورے عمل میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ کنٹرولر امتحانات عمر زور کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ ذرائع کے مطابق 47 کامیاب قرار دیے جانے والے امیدوار فیل ہیں‘ ٹیمپرنگ کے بعد پاس ہونے والے یہ تمام امیدوار اس وقت اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ ذرائع کے مطابق انکوائری کمیٹی کی سفارش میں کہا گیا ہے کہ انکوائری کے حقائق کی روشنی میں سال 2003ءکے امتحانات کے نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے اور سندھ پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحان 2003ءمیں نتائج کے پورے عمل کو جعلی اور غیرقانونی تصور کیا جائے۔

قومی دولت کی واپسی کے لیے چیف جسٹس کا عزم

اتوار اگست 23, 2009 

چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے گزشتہ روز ہمیش خان اور حارث سٹیل ملز کیس کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس کا دل چاہتا ہے سرکاری مال لوٹ کر لے جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کا پیسہ واپس آنا چاہیے۔ افتخار محمد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کسی ادارے کے لوگ کرپشن میں ملوث نہ ہوں، تو بدعنوانی کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے اس عزم کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا کہ قوم کا پیسہ کسی کو لوٹنے کی اجازت نہیں دیںگے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں کرپشن کا ناسور اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ اس کے علاج کے لیے اعلیٰ عدلیہ سمیت ہر سطح پر انفرادی طور پر جب تک کاوشیں نہیں کی جائیں گی اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ عدلیہ کی بحالی کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے جو کام خود احتسابی سے شروع کیا تھا اس کی افادیت آہستہ آہستہ کھلنا شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان میں کئی ایسے بڑے مگرمچھ موجود ہیں جو کرپشن اور قرضوں کی مد میں قوم کی دولت کو غریب کی عزت کی طرح لوٹ کریا تو ملک سے فرار ہوگئے ہیں یا پھر طبقہ اشرافیہ کی اس قطار میں جاپہنچے ہیں، جہاں سے ملک پر حکمرانی شروع ہوتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے جس عزم وہمت کے ساتھ ایسے عناصر کی نشاندہی شروع کرکے ان کے پیٹ سے یہ دولت نکالنے کا عمل شروع کررکھا ہے، اس سے عام آدمی خاصی تقویت محسوس کررہا ہے۔ حارث سٹیل ملز اور ہمیش خان کیسز میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے عدلیہ کا وزارت خارجہ کو انٹرپول کے ذریعے ہدایت دینا اس امر کی روشن دلیل ہے کہ اب اعلیٰ عدلیہ نے ملک کا بیڑا غرق کرنے والوں کو دنیا میں کہیں سے بھی واپس بلاکر نشان عبرت بنانے کا عزم کررکھا ہے۔کرپشن کا یہ عفریت اسی صورت پاکستان سے ختم ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے من حیث القوم کام کیا جائے۔یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے تگ و دو کریں۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کی گرفتاری کے لیے عدلیہ کے احکامات پر جلدازجلد عملدرآمد کی سبیل کرے تاکہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے بولیں اور آئندہ کے لیے اس ملک کا استحصال کرنے والے کسی بھی بدعنوانی سے قبل ہزار مرتبہ سوچیں امید رکھنی چاہیے کہ انصاف کا یہ تسلسل اسی طرح شادمانی سے جاری رہے گا۔

شوگر ملز مالکان نے ناجائز منافع خوری کے لیے مصنوعی قلت پیدا کی

اتوار اگست 23, 2009 


راولپنڈی ( خبر نگار ) پاکستان میں چینی کا موجودہ سٹاک سابق کرشیزسیزن کی پیداوار ہے اس چینی ملز کے مالکان نے 84 روپے فی من گنا خریدا تھا تمام اخراجات کے بعد ملزمالکان کو چینی بائیس روپے فی کلو گرام کے حساب پڑتی ہے بین الاقوامی منڈی میں چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے شوگر ملز مالکان نے ناجائز منافع خوری کی منصوبہ بندی کی اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے مصنوی قلت پیدا کر دی وزارت صنعت نے ان کی ناجائز منافع خور ی پر تصدیق کرنے پر عام کو شکار کرے ان ذخیراندوزوں شوگر ملز مالکان کے سامنے وزارت صنعت میں کسی عوامی مفادات کو پس پشت ڈالنے ہوئے بائیس روپے فی کلو گرام چینی کی قمیت راتوں رات بڑھا کر 35 تا 40 روپے تک لے گئے عوامی دباؤ پر سے باوجود آٹھ روپے قیمت بڑھا کر 28 روپے فی کلو گرام قیمت مقرر کر لی

عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے تمام تر توانائیاںصرف کی جائینگی،سپریم کورٹ

اتوار اگست 23, 2009 


اسلام آباد (جنرل رپورٹر+ نیوزایجنسیاں ) سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے تمام تر توانائیاں صرف کی جائیں گی لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے ضمانت ، خاندانی معاملات اور ملازمتوں سے متعلق مقدمات کو جلد نمٹایا جائے گا یہ فیصلہ گزشتہ روز کراچی میں ہونے والے اجلاس میں کیاگیا ۔ گزشتہ روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی بلڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں چیئرمین کمیٹی جسٹس غلام ربانی ، جسٹس انور ظہیر جمالی اور صوبائی سیکرٹری برائے ورکس اینڈ کمیونیکیشن نے شرکت کی اجلاس میں کمیٹی کے اراکین نے اسلام آباد اور کراچی میں سپریم کورٹ کی زیر تعمیر عمارتوں کے کام کا جائزہ لیاگیا ۔ سیکرٹری ورکس نے کمیٹی کو تعمیرات کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جاری تعمیراتی کام کا جائزہ بھی لیا اور تعمیراتی کام کو وقت پر مکمل کرنے کیلئے ہدایات دیں ۔ اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں جسٹس سردار محمد رضا خان ، جسٹس غلام ربانی ، جسٹس انور ظہیر جمالی اور چیف جسٹس ہائی کورٹ سرمد جلال عثمانی نے شرکت کی ۔ اجلاس میں مشترکہ طور پر قرار داد منظور کی گئی کہ زیر التواء مقدمات کی تعداد کو غیر ضروری التواء کی حوصلہ شکنی اور مقدمات کو نمٹانے کی رفتار بڑھا کر کم کیاجا سکتا ہے ۔اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے تمام تر توانائیاں صرف کی جائیں گی ۔ اس سے قبل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی تقرری کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے ججز اور وکلاء سے مشاورت کا عمل مکمل کرلیا ،آئندہ چند روز میں سندھ ہائی کورٹ میں نئے ججز کو تعینات کئے جانے کا امکان ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت 38میں سے صرف15ججز کام کررہے ہیں ۔

بدعنوان ملکوں کی فہرست میں بنگلہ دیش اول نمبر پر ہے ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل 

 
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل(ٹی آئی َ)نے بنگلہ دیش کو لگاتار پانچویں مرتبہ دنیا کے انتہائی بد عنوان ملکوں کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا ہے اس مرتبہ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ چاڈ کو بھی فہرست میں سب سے اوپر رکھا گیا ہے۔ٹی آئی کی فہرست کے مطابق سب سے بد عنوان ملک چاڈ، بنگلہ دیش ، ترکمانستان ،میانمر ، ہیٹی ، نائیجیریا ، ایکوایٹورئیل گنی ، آیوری کوسٹ ، انگولا اور ازبکستان ہیں ، جب کہ سب سے کم بد عنوان ملک آئس لینڈ ، فن لینڈ ، نیوزی لینڈ ، ڈنمارک ، سنگا پور ، سویڈن ، سوئٹزر لینڈ ، ناروے ، آسٹریلیا اور آسٹریا ہیں ۔



Read The Complaints


شکایت پڑھیئے



http://shikayatmarkaz4a.blogspot.com/

پولیس بے لگام ہے: رپورٹ

پولیس

اس رپورٹ کے مطابق پولیس کیسیز کو حل کرنے کے لیے اکثر غیر قانونی طریقوں کا استعمال کرتی ہے۔

دنیا بھر میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں پولیس بے لگام ہے اور وہ کھلے طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہے لیکن وہ جوابدہ کسی کو بھی نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے محکمہ پولیس میں ذات پات اور امیری غریبی کی بنیاد پر امتیازی سلوک ایک عام بات ہے اور ملک کی جمہوری اقدار کی ان دیکھی کرتے ہوئے '' پولیس اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتی ہے۔'' رپورٹ کے مطابق مشتبہ افراد کو غیر قانوی طور پر حراست میں رکھنا، انہیں ایذائیں دینا اور کئی بار حراست میں ہی جان سے مار دینا پولیس کےرویے میں شامل ہے۔

ہیومن رائٹس کی مینکاشی گنگولی کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں بڑے افسروں کے بجائے توجہ جونیئر اہلکاروں اور تھانوں پر دی گئی جس سے عام لوگوں کا اکثر واسطہ پڑتا ہے اور اسی سطح پر سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔

'' نوئے فیصد کیسیز میں پولیس ملزمین کے خلاف ثبوت نہیں جمع کر پاتی ہے اسی لیے وہ چھوٹ جاتے ہیں، تو انہیں لگتا ہے کہ عدالت انہیں چھوڑ دیگی اس لیے وہ خود سزا دینے لگتے، مارتے پیٹتے ہیں اور کئی بار مار ڈالتے ہیں۔''

میناکشی کا کہنا تھا کہ منموہن سنگھ کی حکومت نے پولیس اصلاحات کا وعدہ کیا تھااس لیے انہیں امید ہے کہ اس رپورٹ کا اس پر اثر پڑیگا۔

ایک سو اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں سینیئر پولیس افسران، جونیئر اہل کار اور متاثرین کے انٹرویوز شامل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس کیسیز کو حل کرنے کے لیے اکثر غیر قانونی طریقوں کا استعمال کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسی لیے پولیس اکثر لوگوں کی امیدوں پر کھرا نہیں اترتی ہے اور وہ سماج میں غیر موثر تصور کی جاتی ہے۔

کامن ویلتھ ہیومن رائٹس واچ تنظیم کے رکن ڈاکٹر پشکر راج کا کہنا ہے کہ بھارت میں سب سے بدعنوان اور خراب پولیس کا ادارہ ہے جس میں فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔'' بھارتی پولیس برطانوی دور کے قوانین کے تحت آج کل بھی کام کر رہی ہے اس کی اصلاحات کے لیے کئی کمیشن بنے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت جب اقتدار میں آتی ہے تو اپنے مقاصد کے لیے وہ اسے اپنے قبضہ میں رکھنا چاہتی ہے۔''

ایشیاء میں ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈم کا کہنا تھا کہ بھارت معاشی سطح پر ترقی کی راہ پر ہے اور دنیا کا بڑا جمہوری ملک بھی لیکن پولیس کا رویہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پر اور غیر جمہوری ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں کام کے لیے پولیس پر ضرورت سے زیادہ دباؤ ہے اور وہ جدید ٹیکنالوجی اور تربیت سے لیس نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیشتر جونیئر پولیس اہل کار اچھی حالت میں کام نہیں کرتے اس لیے دباؤ میں بھی وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جس سے حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔












Tuesday, 04 December, 2007, 17:49 GMT 22:49 PST



ڈی آئی جی پولیس گرفتار

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ،کراچی

پاکستان میں بدعنوانی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے قومی احتساب بیورو نے ڈی آئی جی پولیس الطاف حسین صدیقی کو گرفتار کرلیا ہے۔
سندھ کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل آف پولیس الطاف حسین صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور غیر قانونی طریقے سے املاک بنائیں ۔
قومی احستاب بیورو کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے ٹھٹہ میں پانچ سو ایکڑ سے زائد سرکاری زمین جعلی ناموں سے الاٹ کرا کے اپنے خاندان کے نام کروائی۔
احستاب عدالت کراچی میں ان کے خلاف ریفرنس زیر سماعت ہے اور عدالت نے ان کی گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے۔ انہیں بدھ کی صبح عدالت میں پیش کیا جائیگا۔
ڈی آئی جی الطاف حسین سندھ کے کئی اضلاع میں تعینات رہے اور آجلکل پوسٹنگ کے انتظار میں تھے۔


Wednesday, 26 July, 2006, 16:49 GMT 21:49 PST


میگا کرپشن آف مشرف گورنمنٹ‘

فراز ہاشمی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) نے موجودہ حکومت کے سات سالہ دور کے دوران ہونے والے مبینہ بدعنوانی کے کیسوں پر بدھ کو اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد کیا۔
’میگا کرپشن آف مشرف گورنمنٹ‘ کے عنوان سے ہونے والے اس سیمینار میں مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے ایک درجن سے زیادہ ایسے کیسوں کے بارے میں سیمینار کے شرکاء کو آگاہ کیا جن میں ان کے مطابق اربوں روپے کے گھپلے ہوئے ہیں۔
اس سیمینار میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ایڈمرل ریٹائرڈ جاوید اقبال، مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق اور مسلم لیگ(ن) خواتین ونگ کی صدر عشرت اشرف نے بھی شرکت کی۔
سیمینار میں احسن اقبال نے مبینہ کرپشن کے کیسوں کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا جبکہ دیگر رہنماؤں نے سیاسی تقاریر کیں۔ احسن اقبال نے بدعنوانیوں کے مبینہ کیسوں کے علاوہ اسلام آباد میں چار عشاریہ دو ارب ڈالر کی قیمت سے بننے والے فوجی ہیڈ کواٹر پر بھی سوال اٹھائے۔
سٹیل ملز کی نجکاری کے حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیا جس میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اس سودے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اسے رد کر دیا تھا۔ احسن اقبال نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز قوم کا ایک قیمتی اثاثہ ہے اور اس کی نجکاری میں بدعنوانی کی ذمہ داری کسی ادنی حکومتی اہلکار پر نہیں ڈالی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز کو ساڑھے بائیس ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا جبکہ اس میں دس ارب سے زیادہ کا خام مال موجود تھا۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ سٹیل ملز کے پاس خام مال کے علاوہ ساڑھے آٹھ ارب کا سرمایہ بھی موجود تھا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز کا کل رقبہ چودہ ہزار چار سو ستاون ایکڑ پر مشتمل تھا جس کی قیمت ڈیڑھ سو ارب روپے کے قریب بنتی ہے۔
اسلام آباد میں نئے فوجی ہیڈ کواٹر کی تعمیر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اتنی خطیر رقم سے ملک میں غربت دور کرنے یا تعلیم کو فروغ دینے کے لیئے اگر کوئی ٹرسٹ قائم کیا جاتا تو پانچ سالوں میں ان شعبوں میں انقلابی تبدیلی آسکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہیڈ کوارٹر کے لیئے مختص کی جانے والی اراضی میں سے ایک بڑا حصہ جرنیلوں کے بنگلوں، ان کی تفریح کے لیئےگولف کورس اور اس طرح کی دوسری سہولیات مہیا کرنے کے لیئے استعمال کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر یہ پیسہ ملک کی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیئے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔
احسن اقبال نے اپنی تقریر میں چینی، سیمنٹ اور سٹاک ایکسچینج کے کیسوں کا بھی ذکر کیا۔ اب تک حکومت پر لگائے جانے والے تمام الزامات کی حکومت بڑی سختی سے تردید کرتی رہی ہے۔

سٹیل ملز کو ساڑھے بائیس ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا جبکہ اس میں دس ارب سے زیادہ کا خام مال موجود تھا۔ سٹیل ملز کے پاس خام مال کے علاوہ ساڑھے آٹھ ارب کا سرمایہ بھی موجود تھا۔


احسن اقبال
پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نےکہا کہ ان کی پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ وہ کسی فوجی جنرل سے سودے بازی تو کیا بات تک نہیں کرےگی۔ انہوں نے کہا کہ’ہم اس فوج کی عزت کرتے ہیں جو قوم و ملک کا دفاع کرے لیکن ہم اس فوج کی ہرگز عزت نہیں کرسکتے جو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے‘۔
تحریک انصاف کے رہنما جاوید اقبال نے بھی فوج کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور انہوں نے کہا کہ فوج کے سربراہ نے کبھی اپنے آپ کو حکومت اور آئین کا تابع نہیں سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم کے دور میں جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس وقت سے اب تک کسی جنرل نے حکومتِ وقت کا حکم نہیں مانا۔
انہوں نے کہا کہ’جنرل ایوب نے پانچ دریاؤں کا سودا کر دیا تھا، جنرل یحیٰی نے آدھا ملک توڑ دیا، جنرل ضیاء نے سیاچین کھو دیا اور دین کا سودا کر دیا اور جنرل پرویز مشرف نے ایمان اور ملک کی خودمختاری کو بیچ ڈالا‘۔


Wednesday, 26 September, 2007, 15:08 GMT 20:08 PST


پاکستان بیالیسواں کرپٹ ملک: رپورٹ

ارمان صابر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی




دنیا کے مختلف ممالک میں کرپشن کی سطح کو جانچنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو کرپٹ ترین ممالک میں بیالیسوے نمبر پر جگہ دی ہے۔
ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وہاں کرپشن میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے تاہم پولیس اور تعلیم کے محکموں میں بےانتہا کرپشن ہے۔
کراچی میں بدھ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان کے چیئرمین سید عادل جیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی صورتحال کے حوالے سے معمولی بہتری تو ضرور آئی ہے تاہم کرپشن میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم کرپشن کے حوالے سے مختلف ممالک کو صفر سے دس نمبر دیتی ہے اور یہی اس ملک میں کرپشن جانچنے کا پیمانہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میانمار یعنی برما اور صومالیہ ایک اعشاریہ چار نمبر لے کر دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ ممالک ہیں جبکہ ڈنمارک کے پوائنٹ نو اعشاریہ چار ہیں اور وہاں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔

کرپشن میں کمی
کرپشن میں کمی کے بارے میں وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محکمۂ انکم ٹیکس، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں کمپیوٹر کا بڑے پیمانے پر استعمال کرنے سے ان محکموں میں کرپشن کی سطح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔


پاکستان کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان نے دو اعشاریہ چار پوائنٹ لیے ہیں جبکہ پچھلے سال اس کے دو اعشاریہ دو پوائنٹ تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کرپشن کی سطح میں معمولی کمی آئی ہے۔
کرپشن میں کمی کے بارے میں وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محکمۂ انکم ٹیکس، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں کمپیوٹر کا بڑے پیمانے پر استعمال کرنے سے ان محکموں میں کرپشن کی سطح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔
دوسری جانب ان کے بقول پولیس، لینڈ ریوینیو اور تعلیم کے محکموں میں کرپشن اس وقت بھی بے انتہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کے ذمہ دار عوام ہیں، اگر وہ رشوت نہ دیں تو کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قوانین کو سمجھوتوں کی نذر کردیا جاتا ہے، مثال کے طور پر مختلف پراجیکٹ کے ٹھیکے دینے کے لئے من پسند افراد کو دیکھا جاتا ہے اور اس سلسلے میں قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو یہ حال نہ ہوتا۔ سمجھوتوں کی بنیاد پر سن انیس سو اٹھاسی کے کرپشن کے مقدمات اب تک التواء کا شکار ہیں۔ عدلیہ پر ہمیشہ دباؤ آتے رہیں گے لیکن ان کو چاہیے کہ وہ اپنی صوابدید پر فیصلہ کریں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈکٹیٹر شپ میں کرپشن پروان چڑھتی ہے اور ان کی تنظیم جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’جمہوری حکومت میں وزیرِاعظم ملک کا سربراہ ہوتا ہے لیکن اس حکومت میں وزیرِاعظم صرف کاغذوں پر سربراہ ہے۔‘


Friday, 05 October, 2007, 01:30 GMT 06:30 PST


مصالحتی آرڈیننس، سب کے مزے

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان قومی مصالحتی فارمولے کے تحت مجوزہ آرڈیننس سے جہاں سیاستدانوں کو فائدہ پہنچے گا وہاں اُن کاروباری حضرات، سرکاری افسروں اور فوج کے سابق ملازمین کو بھی فائدہ ہوگا جن کے خلاف قومی احتساب بیورو نے مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔
احتساب بیورو کی ویب سائیٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق بیورو کے قیام سے لے کر رواں سال تیس جون تک گیارہ سو نوے مقدمات عدالتوں میں بھجوائے گئے۔ جن میں سے چھ سو تراسی مقدمات میں عدالتوں نے فیصلے سنائے۔
چار سو پینسٹھ مقدمات میں عدالتوں نے نامزد ملزمان کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائیں جبکہ ایک سو چھبیس مقدمات کے ملزمان کو بری کر دیا گیا۔
احتساب بیورو نے بانوے مقدمات خود واپس لے لیے اور پانچ سو دو مقدمات اب بھی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
قومی احتساب بیورو کے مطابق تیس جون سن دو ہزار سات تک ایک سو سولہ ارب ساٹھ کروڑ روپے ڈیفالٹ قرضوں کے مد میں وصول کیے گئے جبکہ ساٹھ ارب روپے کے قرضہ جات ری شیڈول اور ری سٹرکچر کیے گئے۔

پنہاں ہے سب کا مفاد
بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی شراکت اقتدار کی خواہش کی وجہ سے قومی مصالحت کے قانون سے جہاں حزب مخالف کے سیاستدانوں اور ان کے حامیوں کو فائدہ ہوگا وہاں حکومت میں شامل متعدد اعلیٰٰ شخصیات بھی فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں


احتساب بیورو نے برس ہا برس سے لوٹے گئے کھربوں روپوں میں سے رواں سال تیس جون تک محض چوبیس ارب روپے وصول کیے۔ جبکہ ساڑھے گیارہ ارب روپے انہیں عدالتوں کی جانب سے عائد کردہ جرمانوں کے مد میں وصول ہوئے۔
احتساب بیورو نے سات برسوں میں سب سے زیادہ مقدمات سویلین محکموں کے سرکاری ملازمین اور سب سے کم فوجیوں کے خلاف قائم کیے۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بلا تفریق بے رحم احتساب کا اعلان کیا تھا، لیکن بعد میں احتساب بیورو مخصوص افراد کے خلاف کارروائی کے الزامات سے اپنا دامن نہیں بچا سکا۔
ان الزامات میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب اکتوبر سنہ دو ہزار دو کے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے کھلم کھلا ریاستی ادارے میدان میں کود پڑے اور بڑے پیمانے پر ’ہارس ٹریڈنگ‘ کی گئی۔
اُس وقت نوزائیدہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کو اقتدار میں لانے کے لیے لالچ اور خوف کے ہتھیار بڑی بے رحمی سے استعمال کیےگئے اور اس میں جہاں سول ادارے ملوث تھے وہاں بعض فوجی اداروں پر بھی انگلیاں اٹھیں۔

چھوٹے کی جان سوئس کورٹس سے
بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں چلنے والے مقدمات کا خاتمہ ان کے لیے باعث سکون ہوگا


حکومت سازی کے چکر میں احتساب بیورو کی جانب سے آفتاب احمد شیر پاؤ، فیصل صالح حیات، لیاقت علی جتوئی اور سپیکر قومی اسمبلی چودھری امیر حسین سمیت متعدد اہم شخصیات کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات اور الزامات کے تحت درج مقدمات اور تحقیقات پر کام روک دیا گیا۔
بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی شراکت اقتدار کی خواہش کی وجہ سے قومی مصالحت کے قانون سے جہاں حزب مخالف کے سیاستدانوں اور ان کے حامیوں کو فائدہ ہوگا وہاں حکومت میں شامل متعدد اعلیٰٰ شخصیات بھی فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں۔
اس قانون سے جہاں پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری، ایف آئی اے کے سابق افسر اور آجکل بینظیر بھٹو کے معتمد خاص رحمٰن ملک، بیوروکریٹس سلمان فاروقی اور عثمان فاروقی، ٹیکنوکریٹ حسین حقانی اور دیگر کو فائدہ پہنچے گا وہاں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے بعض دیگر افراد، سید غوث علی شاہ اور سیف الرحمٰن بھی مستفید ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
البتہ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں چلنے والے مقدمات کا خاتمہ ان کے لیے باعث سکون ہوگا۔ ان مقدمات کے حوالے سے حکومت اور بینظیر بھٹو کو پیشیاں بھگتنے اور وکلاء کی فیس کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑے ہیں۔

آئین سے متصادم مصالحت
اعتزاز احسن مقدمات کے خاتمے کے قانون کو آئین کی شق پچیس کے منافی قرار دے رہے ہیں، جس کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں



مصالحتی آرڈیننس کے بارے میں بینظیر بھٹو کا دعویٰ ہے کہ اس کا زیادہ فائدہ موجودہ حکومت میں شامل افراد کو ہوگا۔ ان کے بقول نیب زدہ وزیروں، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے توڑے گئے اسی اراکان اسمبلی کے علاوہ نیب کے وہ افسران بھی بچ جائیں گے جنہوں نے بے بنیاد مقدمات تیار کیے۔
ان کے اس دعوے کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر نیب کے بانی چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد امجد، پنجاب کے موجودہ گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد مقبول اور ان کے موجودہ پرنسپل سیکرٹری حسن وسیم افضل سمیت احستاب بیورو کے کئی افسران بھی جان کی امان پائیں گے۔
تاہم پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماء اور سینئر وکیل اعتزاز احسن مقدمات کے خاتمے کے قانون کو آئین کی شق پچیس کے منافی قرار دے رہے ہیں، جس کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔


Friday, 20 April, 2007, 14:37 GMT 19:37 PST



مشرف حکومت کی ’لوٹ سیل‘

محمد اشتیاق
بی بی سی اردو ڈاٹ کام،اسلام آباد




پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے جمعہ کو ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس کا موضوع مشرف حکومت کی مبینہ بدعنوانی یا ’میگا کرپشن‘ ہے۔
احسن اقبال نے اسلام آباد میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ گزشتہ سات سالوں کے دوران مشرف حکومت جو دعوی کرتی رہی ہے کہ وہ پاکستان کی سب سے کامیاب حکومت ہے، پاکستان کی تاریخ کی بد ترین کرپشن کی مرتکب ہوئی ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری اطلاعات نے مشرف حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے ایک کرپشن سیکنڈل ’سٹیل ملز‘ کا از خود نوٹس لیا تو مشرف حکومت نے عدلیہ کو بھی نہیں چھوڑا اور اسی وجہ سے اب ملک ایک عدالتی بحران کا شکار ہے۔
نواز لیگ کی جانب سے جاری کیے گئے اکانوے صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں سٹیل ملز، حبیب بینک، پی ٹی سی ایل، لینڈ مافیا، ریلوے انجنوں، سٹاک ایکسچینج، قیدیوں کے تبادے کے معاہدے، چینی کا بحران، پاک امریکن فرٹیلائزر، اور خفیہ ایجنسیوں کے کردار جیسے سکینڈلز کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے
کتابچے میں حکومت پر عدلیہ اور آئینی اداروں کو تباہ کرنے اور میڈیا پر حلموں جیسے الزامات بھی لگائے گئے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس وقت مشرف حکومت کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کو تحریری طور پر اس لیے منظر عام پر لایا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کے عوام اور دانش ور طبقے کو پاکستان کے کلیدی اداروں میں ہونے والی کرپشن کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔
پریس کانفرنس میں ملک میں موجود بجلی کے بحران پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں دو ہزار میگا واٹ بجلی کی کمی ہے جو موسم گرما کے شدید ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ اور یہ ایسان بحران ہے جس سے عام آدمی سے لے کر ملک کی انڈسٹری سب متاثر ہو رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے وزیر مملکت برائے اطلاعات طارق عظیم نے ان الزامات کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ طارق عظیم کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن صدر مشرف اور وزیراعظم پر آج تک کرپشن کا ایک بھی الزام ثابت نہیں کر سکی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن کا سال ہے اور پاکستان کے باشعور عوام جانتے ہیں کے بدعنوانی کے الزامات اپوزیشن کے بیمار ذہن کی اختراع ہیں۔



Thursday, 18 January, 2007, 22:02 GMT 03:02 PST



زلزلے کی رقوم کی تفصیلات طلب

ذوالفقار علی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




پبلک اکونٹس کیمٹی نے زلزے سے متعلق تعمیر نو اور بحالی کے ادارے ایرا سے کہا ہے کہ وہ زلزہ زدہ علاقوں میں تقسیم کی گئی رقوم کے بارے میں تفصیلات فراہم کرے۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکونٹس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اقتصادی امور ڈویژن کے سیکریڑی اکرم ملک نے اجلاس کو بتایا کہ زلزے سے متعلق تعمیر نو اور بحالی کا ادارہ اب تک زلزے سے متاثرہ علاقوں میں ایک ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔
رکن کمیٹی سید قربان علی شاہ نے کہا کہ یہ رقم کہاں تقسیم کی گئی ہے کیوں کہ ان کے کہنے کے مطابق اٹھارہ لاکھ متاثرین اب بھی ان علاقوں میں کھلے آسمان تلے بے سرو سامانی میں رہتے ہیں۔
اکرم ملک نے اجلاس کو بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تفصیلات نہیں ہے اس لئے بہتر ہے کہ ایرا سے اس باری میں تفصیلات لی جائیں تا کہ صحیح صورت حال سے آگاہی ہوسکے۔
پبلک اکونٹس کمیٹی نے ایرا کے چیئرمین کو ہدایت کی وہ تقسیم شدہ رقم کی تفصیلات فراہم کرے اور اس غرض کے لئے امکان ہے کہ پبلک اکونٹس کمیٹی کا اگلے ماہ ایک خصوصی اجلاس طلب کیا جائے گا۔
قربانی علی شاہ نے کہا کہ بعض ممالک نے وعدے کے مطابق رقم نہیں دی کیوں کہ حکومت نے تعمیر نو کے کاموں میں سول اداروں کو شامل نہیں کیا اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔


Tuesday, 03 October, 2006, 14:22 GMT 19:22 PST



زلزلے کی کچھ امداد شدت پسندوں تک؟

کیٹ کلارک
بی بی سی نیوز




بی بی سی کی ایک تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ اکتوبر 2005 میں پاکستان میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کے لیئے اقوام متحدہ کی جانب سے دی جانے والی کچھ امداد، امدادی اداروں کے ذریعے شدت پسند جہادی گروپوں تک بھی پہنچی ہے۔
زلزلے میں 79000 افراد ہلاک جبکہ 11000 بچے یتیم ہوگئے تھے جبکہ تقریباً بیس لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ امدادی تنظیموں میں سے ایک، جس کا تعلق شدت پسندوں سے ہے، اب یتیم ہونے والوں بچوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
پاکستان میں تباہ کن زلزلے کے بعد کے دنوں میں حکومتِ پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ ایسے بے سہارا ہونے والوں تمام بچوں کی نگرانی حکومت خود کرے گی۔
اکتوبر کے زلزلے سے جس پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بے گھر ہونے والوں کی بڑی تعداد دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہوگئی۔ بے شمار ملکی و غیر ملکی، سرکاری و غیر سرکاری امدادی ادارے متاثرین کی امداد کے لیئے حرکت میں آگئے۔
اس موقع پرشدت پسندوں سے منسلک کئی امدادی تنظیمیں بھی سرگرم ہوگئیں۔
انہیں میں سے ایک الرشید ٹرسٹ ہے جس پر اقوام متحدہ کی جانب سے پابندی عائد تھی۔ اس تنظیم پر القاعدہ کا ساتھ دینے کا الزام تھا۔

حکومت کارروائی کرے گی
حکومت جماعت الدعوٰہ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ اس پر اقوام متحدہ نے پابندی نہیں لگائی ہے تاہم اگر یہ ادارے امداد سے آگے کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے تو حکومت ان کے خلاف کرروائی کرے گی۔


آفتاب شیر پاؤ

تاہم اقوام متحدہ نے امداد متاثرہ علاقوں کے ریلیف کیمپس تک پہنچائی جن میں سے کچھ الرشید ٹرسٹ کے تھے۔
اقوام متحدہ کے اداروں نے جماعت الدعوۃ کے ساتھ مل کر بھی کام کیا ہے۔ یہ تنظیم بھی امریکی دعوے کے مطابق کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے منسلک ہے۔ تاہم تنظیم اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
جماعت الدعوۃ کے شائع کیئے جانے والے لٹریچر میں جہاد کی تعریفیں اور غیر مسلموں کے خلاف حملوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے رابطہ کار ژاں وینڈے مورٹیل کا کہنا ہے انہوں نے ان تنظیموں کے ساتھ مل کر کام نہیں کیا بلکہ ان کیمپوں تک امداد پہنچائی ہے جو ان تنظیموں کے تھے۔ ’ہمارا ان کے ساتھ براہ راست رابطہ نہیں تھا‘۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت صورتحال موت و زندگی کے درمیان کشمکش کی تھی لیکن ان علاقوں میں اس آفت سے پہلے جماعت الدعوۃ اور الرشید ٹرسٹ زیادہ سرگرم نہیں تھیں۔ تاہم امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر کام لینے سے علاقے میں ان کی پوزیشن کافی مستحکم ہوگئی ہے۔
جماعت الدعوۃ کے ایک رہنما نے بتایا کہ لوگ ان پر اعتبار کررہے ہیں اور کئی یتیم بچوں کو ان کے زیر نگرانی بھی دے دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے تقریباً 400 بچے اب ان کے مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔

مغربی ممالک مدارس کو زیادہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ تاہم ملک کے بیشتر مدارس متنازعہ نہیں ہیں۔ جماعت الدعوۃ کے ایک رہنما کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کے مدارس میں صرف دینی تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ دیگر مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔
لیکن مانسہرہ کے ایک مدرسہ میں صبح بچے جو ترانہ پڑھ رہے تھے وہ کئی کے لیئے باعث فکر ہے۔ ترانے کے الفاظ کچھ یوں تھے ’جب لوگ ہمارے دین کو جھٹلائیں تو انہیں اسلام کی دعوت دو اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں تباہ کردو‘۔
تاہم جماعت الدعوۃ کے ترجمان نے تردید کی کہ بچوں کو ایسے کسی کام کی ترغیب دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امدادی کاموں کے سلسلے میں یہاں بہت سے غیر مسلم آئے، کسی پر بھی اعتراض نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم عسکریت پسند نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لشکر طیبہ سے تعلقات ہیں۔
تاہم ایک امریکی ماہر لیرح رابنسن کا کہنا ہے کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد شدت پسندوں کو فنڈز فراہم کرنے والی تنظیموں میں الرشید ٹرسٹ بھی شامل تھا۔ اس پر سرکاری پابندی کے باوجود بھی یہ سرگرم رہی اور اب یہ پاکستان کے بڑے امدادی اداروں میں سے ایک ہے۔

امدادی کاموں کے سلسلے میں یہاں بہت سے غیر مسلم آئے، کسی پر بھی اعتراض نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم عسکریت پسند نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لشکر طیبہ سے تعلقات ہیں۔


جماعت الدعوۃ

زلزلے کے بعد حکومت پاکستان نے الرشید ٹرسٹ اور جماعت الدعوۃ کے کاموں کی تعریف کی تھی۔
وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کا کہنا ہے کہ حکومت جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ اس پر اقوام متحدہ نے پابندی نہیں لگائی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ادارے امداد سے آگے کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔


Monday, 04 December, 2006, 14:48 GMT 19:48 PST



سرحد میں ہفتہ انسداد کرپشن

رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردوڈاٹ کام پشاور




سرحد کی صوبائی حکومت اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے بدعنوانی کی روک تھام بالخصوص نچلی سطح پر کرپشن کے خاتمے کےلیے چار سے نو نومبر تک صوبہ بھر میں ہفتہ انسداد کرپشن منانے کا اعلان کیا ہے۔
اس مہم کے دوران پورے صوبے میں سیمنار ، مباحثے ، تعلیمی اداروں میں تقرری مقابلے اور واک سمیت دیگر سرگرمیوں کا بھی انعقاد کیا جائے گا ۔
پیر کو پشاور میں صحافیوں کو بریفینگ دیتے ہوئے نیب سرحد کے قائم مقام سربراہ بریگیڈیر مصدق عباسی اور صوبائی سیکرٹری اسٹبلشمنٹ میاں صاحب جان نے کہا کہ اس مہم کے دوران ضلعی حکومتوں کے دفاتر میں سپیشل سیل قائم کیے جائینگے جن میں موجود نیب اہلکار ضلعی حکومتوں کے کرپٹ اہلکاروں کے خلاف عوامی شکایات وصول کرینگے جن پر کاروائی بھی ہوگی۔
انہوں نے واضع کیا کہ نو دسمبر کو پورے ملک میں عالمی یوم انسداد بدعنوانی کا دن منایا جارہا ہے جبکہ صوبائی حکومت نے اس ضمن میں پورا ہفتہ منانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نعرہ ’ ہم سب ملکر کرپشن ختم کرسکتے ہیں’ رکھا گیا ہے۔

ہر سال پاکستان میں بیس سے تیس فیصد جی ڈی پی کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے جبکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کے عام واقعات میں ملک کو ہر سال 47 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے جو ان کے بقول بہت بڑا نقصان ہے۔


مصدق عباسی(سربراہ نیب)
ان کا کہنا تھا کہ اس ہفتے کے دوران عوام کو بتایا جائے گا کہ سرکاری دفاتر عوام کے ٹیکسوں سے قائم ہیں اور ان کاکام عوام کو مفت سروسز فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 8 دسمبر کو نشترہال پشاور میں گریڈ 18 اور ان سے اوپر گریڈوں کے افسران کےلیے سیمنار کا انعقاد کیا گیا ہے اسی طرح صوبہ بھر کے ڈی سی اوز کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یہ ہفتہ بھر پور طریقے سے منائیں اور اس میں عوام خصوصاً طلبہ کی شرکت کو یقینی بنائیں تاکہ انہیں بدعنوانی کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکیں۔
نیب سرحد کے قائم مقام سربراہ مصدق عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر سال پاکستان میں بیس سے تیس فیصد جی ڈی پی کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے جبکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کے عام واقعات میں ملک کو ہر سال 47 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے جو ان کے بقول بہت بڑا نقصان ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جو بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے ہیں ان میں بھی ہر سال بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں ہوتی ہے۔ مصدق عباسی نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سرحد کرپشن میں سب سے آخری نمبر پر ہے ۔


Monday, 11 December, 2006, 20:06 GMT 01:06 PST



اگلا نشانہ جنگلات اورٹمبرمافیا‘

ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور




صوبہ سرحد میں قومی احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ کئی وزراء اور سیاستدانوں کے خلاف بدعنوانی کے سلسلے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ تاہم نیب فرنٹیر کے ایک اعلی اہلکار نے اس سلسلے میں مزید تفصیل دینے سے انکار کیا۔
صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیب کے صوبائی سربراہ ائیر وائیس مارشل طاہر رفیق بٹ کا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے پر ہی وہ ان وزراء کی تفصیلات ذرائع ابلاغ کے سامنے لاسکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ بتانے سے بھی انکار کیا کہ کیا یہ تحقیقات وفاقی یا صوبائی وزراء کے خلاف کی جا رہی ہیں؟ تاہم انہوں نے بس اتنا ہی بتایا کہ یہ کاروائی موجودہ وزراء کے خلاف کی جا رہی ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ اب ’بڑی مچلھیوں‘ پر سیاسی یا کسی اور وجہ سے نیب اس طرح ہاتھ نہیں ڈال رہی جیسے اپنے ابتدائی ایام میں وہ کرتی رہی ہے۔ تاہم نیب کے صوبائی سربراہ نے اس سے انکار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب اس طرح کے ریفرنسوں کی کمی کی کئی وجوہات میں کئی پابندیاں بھی ہیں جو اب نیب کے قانون میں ترامیم کے ذریعے نافذ کی گئی ہیں۔ ’اب ہم گورنر سٹیٹ بنک کی اجازت کے بغیر کسی اکاونٹ کی معلومات حاصل نہیں کر سکتے‘۔
نیب حکام کے مطابق وہ عوامی شکایات پر حرکت میں آتے ہیں لہذا اگر کسی کے پاس کسی بدعنوانی کے شواہد ہیں تو وہ انہیں نیب کے پاس لے کر آئیں اور وہ ان پر پوری کارروائی کریں گے۔

جنگلات اور ٹمبر مافیا ان کا اگلا نشانہ ہوں گی۔ اس کے علاوہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ میں بھی ترقیاتی منصوبوں میں دھاندلی کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔


ائیر وائیس مارشل طاہر رفیق بٹ
اس پریس کانفرنس کا انعقاد صوبہ سرحد میں نیب کی جانب سے ہفتہ انسداد بدعنوانی کے اختتام پر اس میں حاصل کیے گئے اہداف سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس ہفتے کے دوران نیب نے نوجوان نسل کو بدعنوانی سے پیدا ہونے والے مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں لیکچر، سیمنار اور مذاکرے منعقد کیے تھے۔
پریس کانفرنس میں صوبائی چیف سیکریٹری اعجاز قریشی بھی موجود تھے۔ نیب کے سربراہ نے ان کی طرف سے صوبائی حکومت میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کوششوں کو سراہا۔
مستقبل کے اہداف کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو بتاتے ہوئے نیب کے صوبائی سربراہ کا کہنا تھا کہ جنگلات اور ٹمبر مافیا ان کا اگلا نشانہ ہوں گی۔ اس کے علاوہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ میں بھی ترقیاتی منصوبوں میں دھاندلی کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔
تاہم ایک اہم ہدف ان کے قریب قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں میں خوردبرد کا سدباب ہوگا۔


Sunday, 22 October, 2006, 00:24 GMT 05:24 PST


گوادر: تحقیقات عدالتی ہوئیں تو

بہرام بلوچ
گوادر




زمیں داروں اور حصہ داروں کے درمیان تنازعات کا آغاز زمینوں کی بڑھتی ہوئی قیمت کے سبب اس وقت سے ہوا جب گوادر ڈیپ سی پورٹ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی گوادر میں زمینوں کی خریداری کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ سب سے منافع بخش کاروبار بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی تنازعات بھی شروع ہوئے اور اس وقت ہزاروں کیس ذیلی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک میں زیرسماعت ہیں۔
گوادر سرکاری زمین کا الاٹمنٹ منسوخ
گوادر کی زمین سونا بن گئی ہے مگر
پورٹ پر کام کا آغاز ہوتے ہی، زمینیں خریدنے کے لیے پورے پاکستان سے لوگ گوادر آئے اور گزشتہ سال تک زمینوں کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچیں تاہم سیلاب کے بعد سے قیمتیں گری ہوئی ہیں۔
حکومت اور گوادر کے محکمہ بندوبست کی جانب سے صوبائی حکومت میں شامل وزرا کو بھی یہاں ہزاروں ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ہے۔ ان میں خاص طور پر دو موضع جات مشہور ہیں۔ جن کے نام چاتانی بل اور زباوڈن ہیں۔ عوامی اور سیاسی مطالبات پر صوبائی حکومت اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی قائم کر چکی ہے۔ جس میں وفاقی وزیر زبیدہ جلال، صوبائی وزراء احسان شاہ، اصغرعلی، اور بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے رکن اسمبلی کچکول علی ایڈوکیٹ بھی شامل ہیں۔ اس کمیٹی کا ایک اجلاس گوادر میں ہو چکا ہے لیکن بااثر صوبائی وزیروں کی مداخلت اور مخالفت کی وجہ سے کمیٹی اپنی رپورٹ تا حال پیش نہیں کر سکی۔
ادھر گوادر زمیندار ایکشن کمیٹی کے مطابق گوادر ماسٹر پلان کے تحت ہسپتال، کالج، سپورٹس کمپلیکس اور دیگر سرکاری ضروریات کے لیے اراضی بلا معاوضہ دی گئی ہے۔ کمیٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نیب نے بھی زمینداروں سے زمین حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور ماورائے قانون اقدام کے باعث زمینداروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مختلف موضع جات میں صوبائی وزیروں کو زمینیں دی گئی ہیں لیکن اس معاملے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

گوادر میں سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ اور حکومتِ بلوچستان کی جانب سے زمینداروں کے کھاتوں کی منسوخی کے باعث عدالتی چارہ جوئیوں اور مقدمات کا سلسلہ چار سال سے جاری ہیں۔
زمینوں کی مالکانہ حقوق کی منسوخی کی ایک مثال یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ایک حکم کے تحت گوادر کے محکمہ بندوبست کا ریکارڈ کوئٹہ منگوا کر گوادر کے موضع آنکاڑہ شمالی میں زہرہ بی بی کی اراضی صوبائی حکومت کے نام منتقل کر دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اراضی کے کئی حصے اس سے پہلے ہی مختلف لوگوں کو فروخت کیے جا چکے تھے۔ جن میں ہاشو گروپ ہی نہیں کئی حاضر سروس اور ریٹائر فوجی افسران بھی شامل تھے۔
ہاشو گروپ نے اس اراضی پر ’گولڈن پام‘ کے نام سے ایک ہاؤسنگ سکیم کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن اراضی کی منسوخی و منتقلی سے کاروباری حلقوں اور خریداروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
اس کے بعد نیب نے بااثر افراد سے فی ایکڑ ایک لاکھ چوبیس ہزار لے کر ان کی اراضی بحال کر دی حالانکہ مذکورہ اراضی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا۔
پورٹ کے قیام کے اعلان کے بعد سے اراضی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے بہت لوگ راتوں رات کروڑ پتی بن گئے حالانکہ اس سے پہلے گوادر کی زمین تین ہزار روپے ایکڑ میں دستیاب تھی لیکن جیسے ہی گوادر ماسٹر پلان کا اعلان ہوا ایک ماہ کے اندر جناح ایونیو کے دونوں اطراف اراضی کی فی ایکڑ قیمت دس لاکھ سے دو کروڑ روپے تک جا پہنچی۔

نیب نے فیصلہ کر دیا
نیب نے بااثر افراد سے فی ایکڑ ایک لاکھ چوبیس ہزار لے کر ان کی اراضی بحال کر دی حالانکہ مذکورہ اراضی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا


اب سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کے احکام کو غیرقانونی قراردیتے ہوئے فوری طور پر ارکان قومی وصوبائی اسمبلی، سینیٹروں اور حکومتی عہدیداروں کے نا م زمینوں کے الاٹمنٹ کے احکاما ت منسوخ کردیے ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس حکم سے گوادر میں اراضی کے سلسلے میں جاری تحقیقات کا دائرہ وسیع ہو گا اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تحقیقات عدالتوں کے ذریعے کی گئی تو بڑے بڑے انکشافات ہوں گے اور اگر تحقیقات نیب یا کسی اور سرکاری سطح پر کی گئیں تو کہانی کا اختتام وہی ہوگا جو ایوب خان کے زمانے میں ایک خاتون کی شکایت کا ہوا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں ایک خاتون نے صدر ایوب خان سے ایک خط کے ذریعے شکایت کی کہ اس کی اراضی ایک پٹواری نے کسی اور کے نام الاٹ کر دی ہے۔ صدر نے فوری طور پر تحقیقات کا حکم دیا اور درخواست اوپر سے ہوتی ہوتی ڈی سی کے ذریعے پھر اُسی پٹواری تک پہنچ گئی جس کے خلاف شکایت کی گئی تھی۔
گوادر میں اراضی کے سروے سٹلمنٹ کا کام 1985 میں شروع اور 94-1993 آخری بار گوادر شہر کی تصدیق کی گئی۔ طریقۂ کار کے مطابق بلوچستان میں محکمہ برائے بندو بست اراضی کا سروے اور ریکارڈ مکمل کرتا ہے اور پھر اس ریکارڈ کو محکمہ ریونیو کے حوالے کیا جاتا ہے لیکن گوادر میں گوادر کا ریکارڈ تا حال محکمہ بندوبست کے پاس ہی ہے اور کئی بار نیب کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے۔





گوادر، ترقی یا کالونائزیشن






عدنان عادل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ




جوں جوں گوادر بندرگاہ کی تکمیل کا وقت قریب آرہا ہے بلوچ قوم پرست اور عسکریت پسندوں کی کاروائیوں میں شدت آتی جارہی ہے۔ مارچ دو ہزار دو میں گوادر کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا اور اس کے ٹھیک ایک سال بعد بلوچستان میں قوم پرستوں اور عسکریت پسندوں کی کاروائیاں بڑھنے لگیں۔
شدت پسندوں کے بڑے مراکز، کوہلو، قلات اور ڈیرہ بگتی، گوادر سے چھ سے آٹھ سو کلومیٹر دور ہیں۔ سوئی میں راکٹوں سے ہونے والے حملوں پر نواب اکبر بگتی نے کہا تھا کہ جب سوئی میں لوگ محفوظ نہیں تو گوادر میں کیسے محفوظ ہوں گے۔ انسپکٹر جنرل بلوچستان کے مطابق گوادر میں قائم عسکریت پسندوں کے ایک کیمپ کو ختم بھی کیا گیا ہے۔
اس سال موسم گرما تک اس نئی بندرگاہ پر پچاس ٹن وزنی جہاز لنگر انداز ہونا شروع ہوجائیں گے۔ دوسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد یہاں ڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز لنگر انداز ہوسکیں گے۔

گوادر کا مالک کون
بلوچستان کی ساری زمین قبائل کی ملکیت ہے، ریاست کی نہیں


خان آف قلات
بلوچستان کے جنوب میں چھ سو میل لمبی ساحلی پٹی پر سولہ ہزار آبادی کے پُر امن قصبے گوادر کا تنازعہ اِس وقت بلوچستان میں قوم پرستی کی تحریک کے چار بڑے ستونوں میں سے ہے۔ حکومت اسے بلوچستان کی ترقی کا جبکہ قوم پرست اسے بلوچستان کی کالونائزیشن کا منصوبہ قرار دیتے ہیں۔
بلوچوں کا خدشہ یہ ہے کہ بندرگاہ بننے اور اس ساحلی شہر کی ترقی سے یہاں آبادی تیزی سے بڑھے گی اور کچھ برسوں میں بیس سے پچیس لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ان کا خیال ہے کہ آبادی میں اتنے زیادہ اضافہ سے آبادی کا تناسب تبدیل ہوجائے گا اور پنجابی، اردو بولنے والے اور پٹھان اکثریت میں آجائیں گے اور وہ اقلیت بن جائیں گے۔
بلوچستان کے ماضی میں حکمران خاندان کے سربراہ خان قلات میر سلیمان داؤد خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی ساری زمین قبائل کی ملکیت ہے، ریاست کی نہیں۔ خان قلات میر داؤد کا کہنا ہے کہ گوادر گچکیوں کی ملکیت ہے۔
ان کا کہنا ہے گوادر(ملحقہ علاقوں سمیت) کی آبادی اس وقت ساٹھ ہزار ہے جبکہ بندرگاہ بننے کے بعد یہاں دس لاکھ افراد کی ضرورت ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے یہ سب لوگ کراچی سے آئیں گے۔
خان قلات کہتے ہیں کہ یہ ایک خام خیالی ہے کہ گوادر کی ترقی وسط ایشیا سے تجارت کے لیے ہورہی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ وسط ایشیا کی تجارت تو ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے ہورہی ہے جس کے لیے گوادر بے کار ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ گوادر بندرگاہ دراصل چین کی تجارت کے لیے بنائی جارہی ہے۔
کوئٹہ میں انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے اس مسئلہ پر ایک تحقیق کی اور گوادر کے رورل کمیونٹی سینٹر کے نصیر بلوچ نے بتایا کہ گوادر میں بلوچستان سے باہر سے آنے والے سیاستدان، سرکاری افسر اور کاروباری حضرات دھڑا دھڑ زمینیں خرید رہے ہیں اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ زمین کی ملکیت کا اندراج بے نامی نظام کے تحت ہورہا ہے۔
بلوچستان سے متحدہ مجلس عمل کے رہنما حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ گوادر میں ایسا گروہ موجود ہے جس نے زمینوں پر ناجائز قبصے کیے اور کوڑیوں کے بھاؤ زمینیں خرید کر انہیں سونے کے بھاؤ بیچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متحدہ مجلس عمل نے مقامی حکومت کے وزیر کو ہدایت کی ہے کہ گوادر کی سنگھار سکیم کے پلاٹوں اور ایسے دیگر پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی جائے۔
ایک بلوچ تاجر محمد عبدالرحیم ظفر کا کہنا ہے کہ گوادر بندرگاہ سے ائرپورٹ تک کا علاقہ بارہ کلومیٹر لمبی پٹی پر مشتمل ہے لیکن حکومت نے واضح نہیں کیا کہ یہ زمین کس طریق کار سے حاصل کی جائے گی۔ ان کے مطابق انیس سو نوے میں یہاں زمین کی قیمت پانچ سو روپے فی پانچ سو گز تھی جو اب پندرہ لاکھ روپے فی پانچ سو گز تک پہنچ چکی ہے۔
ایک مقامی وکیل کا کہنا ہے کہ مقامی افراد کی زمینوں کی ملکیت ان کی مرضی اور علم کے بغیر تبدیل کی جارہی ہے اور انہیں ان کی ملکیت سے محروم کیا جارہا ہے۔ مقامی افراد الزام لگاتے ہیں کہ پٹواریوں نے زمینوں کا جعلی ریکارڈ تیار کر کے لاکھوں روپے کمائے۔
بلوچ دانشور اور سابق اعلیٰ سرکاری افسر عبدالحکیم بلوچ کے مطابق گوادر کی زمین ریاست کے محکمہ مال کی ملکیت ہے لیکن لینڈ مافیا نے مکرانی انڈرورلڈ کے حکومت اور اسمبلیوں میں شامل لوگوں کے ساتھ مل کر اسے غصب کرلیا ہے۔
عبدالحکیم بلوچ الزام لگاتے ہیں کہ محکمہ بحالیات (سیٹلمنٹ) نے گوادر تحصیل کا سروے کیا اور صوبائی حکومت کی لاکھوں ایکڑ زمین ایسے لوگوں کے نام منتقل کردی جواس کے مالک نہیں تھے۔
ان کے مطابق یہ زمین بنجر تھی، ریت کے ٹیلوں پر مشتمل تھی، جنگل تھے اور ناقابل کاشت تھی جس کی ملکیت محکمہ مال کے قوانین اور ضوابط کے تحت کسی کو منتقل نہیں کی جاسکتی۔
عبدالحکیم بلوچ کے مطابق لینڈ مافیا نے بدعنوانی کے ذریعے اس لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ کرکے بلوچستان حکومت کو آمدن کے ایک بڑے ذریعہ سے محروم کردیا ہے جسے ترقی دے کر اور فروخت کرکے حکومت اس کھربوں روپے کی آمدن سے محروم ہوگئی ہے جسے بلوچستان کی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اب تک اس کی اصلاح کو کوئی قدم نہیں اٹھایا جو اگر اٹھا لیا جائے تو گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ کے دوسرے مرحلے میں پورے صوبے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

دوہری ملکیت
زمینوں کی ملکیت کے بارے میں مسائل اس لیے بھی پیدا ہوئے ہیں کہ گوادر کے اکثر شہریوں کے پاس پاکستان اور سلطنت اومان کی دوہری شہریت ہے


پٹواری
عبدالحکیم بلوچ کا یہ بھی کہنا ہے کہ قوانین کے مطابق ایسے ضلع میں زرعی زمین بھی کوئی شخص کسی ایسے شخص کو فروخت نہیں کرسکتا جو اس ضلع کا رہائشی نہ ہو۔ اس کے لیے ضلعی کلکٹر کی اجازت لینا ضروری ہے لیکن اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہؤیے گوادر میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین فروخت کی گئی۔
محکمہ بحالیات نے گوادر میں انیس سو تراسی سے گوادر کی زمین کا سروے شروع کیا ہوا ہے لیکن ابھی تک مکمل نہیں کیا اور محکمہ ریونیو کے ایک افسر کے مطابق بحالیات زمینوں کا ریکارڈ انہیں مہیا نہیں کررہی۔ خاصے شور شرابے کے بعد صوبائی حکومت کے چیف سیکرٹری نے محکمہ بحالیات میں بے قاعدگیوں کی شکایات کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے۔
دوسری طرف پٹواریوں کا کہنا ہے کہ زمینوں کی ملکیت کے بارے میں مسائل اس لیے بھی پیدا ہوئے ہیں کہ گوادر کے اکثر شہریوں کے پاس پاکستان اور سلطنت اومان کی دوہری شہریت ہے اور وہ زمینوں کی ملکیت کے ثبوت میں اومانی دستاویزات پیش کرتے ہیں۔ گوادر انیس سو چھپن تک سلطت عمان کا حصہ تھا جس نے اسے پاکستان کو فروخت کیا۔
تاہم سرکاری افسر خود گوادر میں زمینوں کے بڑے فراڈ کی تصدیق کرتے ہیں۔ کوئٹہ میں محکمہ مال کے ایک اعلی افسر کا کہنا ہے کہ گوادر میں کم سے کم ایک لاکھ ایکڑ زمین ایسی ہے جو چھ چھ بار فروخت ہوچکی ہے اور اس میں پینتیس ہزار ایکڑ سرکاری زمین شامل ہے اور گزشتہ تین سال میں ہونے والے زمینوں کے تقریبا آدھے سودے ایسے ہیں جو درست نہیں۔
محکمہ مال کا ریکارڈ مقامی تھانہ میں رکھا گیا ہے جس سے عام لوگوں کو ہی نہیں بلکہ سرکاری عملہ کو بھی تکلیف کا سامنا ہے۔ عدالتوں سے رجوع کرنے کے لیے عام آدمی کو دو سو کلومیٹر دور تربت جانا پڑتا ہے جس کے لیے اس کے پاس ٹرانسپورٹ کے وسائل نہیں۔
(اگلی قسط میں دیکھیں گوادر سے متعلقہ دوسرے مسائل اور قوم پرستوں کے مطالبات)


Thursday, 17 February, 2005, 12:35 GMT 17:35 PST


گوادر: شکوے، شکایتیں، خدشات






عدنان عادل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ




اس وقت گوادر پُرامن جگہ تصور کی جاتی ہے۔ گزشتہ دس سال میں یہاں صرف ایک قتل ہوا۔ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق یہاں عورتوں سے زیادتیوں کی شکایات اس وقت نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن مقامی لوگوں کے خدشات ہیں کہ بندرگاہ کی تعمیر سے جرائم میں اضافہ ہوگا۔
گودار کی ترقی کے کاموں میں مقامی افراد کے روزگار اور ملازمتوں کا معاملہ بھی متنازعہ ہے۔ سرکاری حلقے اور غیرسرکاری حلقے الگ الگ کہانیاں بیان کرتے ہیں اور مقامی افراد کو دی گئی ملازمتوں کی تعداد کے بارے میں الگ الگ اعداد وشمار پیش کرتے ہیں۔
سرکاری لوگوں کے مطابق ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دار مقامی بلوچ ہیں اور انہوں نے مقامی لوگوں کو خاصی ملازمتیں دیں لیکن وہ تربیت لے کر کراچی چلے گئے۔
خان قلات کا کہنا ہے کہ گوادر اور سیندک کی ترقی میں مقامی لوگوں کا کوئی کردار نہیں جبکہ تربیت یافتہ ہنرمند بلوچ لوگ اور بلوچ انجینئر دستیاب تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچوں کو چین میں تربیت کیوں نہیں دلوائی گئی۔

قوم پرستوں کے مطالبات
گوادر بندرگاہ سے جو بھی محاصل مستقبل میں حاصل ہوں وہ تمام بلوچستان کو دیے جائیں، گوادر پورٹ اتھارٹی کا سربراہ بلوچ ہو اور اس کے بورڈ کے ارکان کم سے کم چھ فیصد بلوچستان سے ہوں۔


بلوچ قوم پرست
دانشور عبدالحکیم بلوچ کے مطابق گوادر سے بلوچستان کے اندر پھیلنے والی بے چینی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس بندرگاہ کو مشرق کی طرف ساحلی سڑک کے ذریعےکراچی سے تو ملادیاگیا ہے لیکن اس بندرگاہ کو بلوچستان کے اندرونی علاقوں سے ملانے کے لیے ہائی وے نہیں بنائی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبہ کے وسط اور شمال میں جانے کے لیے تربت، پنجگور اور خضدار سے کوئٹہ تک ملانے کے لیے سڑک نہ بنانے سے بلوچستان کے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ انہیں چاروں طرف زمین سے گھرا ہوا یا لینڈلاک بنایا جارہا ہے۔
بلوچ دانشور کہتے ہیں کہ گوادر کی ترقی سے یہاں کے لوگوں کو جب ہی فائدہ ہوگا جب یہ سڑک بنائی جائے جس سے سرمایہ کاری، تجارت، کاروبار، ملازمت کے مواقع سب کے لیے پیدا ہوں گے۔
عبدالحکیم کے مطابق گوادر میں پینے کے پانی کی شدید کمی ہے اور آبادی میں اضافہ سے یہ مسئلہ اور سنگین ہوگا جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت وہاں پر سمندری پانی کو صاف کرکے پینے کے قابل بنانے کے لیے ایک ڈی سیلینائزیشن پلانٹ لگائے تاکہ ترقی اور تعمیرات کے لیے پانی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔
بندرگارہ بننے سے ماہی گیروں کوالگ مسائل کا سامنا ہے۔ جہاں نئی بندرگاہ بنائی جارہی ہے وہاں زیرآب چٹانوں کا سلسلہ ہے جن میں بڑی تعداد میں مچھلیوں کی پرورش ہوتی ہے۔ اب ان چٹانوں کو توڑا جارہا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چٹانوں کو توڑے جانے کی وجہ سے مچھلیوں کو پکڑنا اور چھوٹی کشتیوں کی مرمت کرنا مشکل ہوجائے گا اور صرف بڑے ٹرالوں کے ذریعے ہی ماہی گیری ہوسکے گی جس کے لیے مقامی ماہی گیروں کے پاس وسائل نہیں۔
علاقہ میں پرانی بستیوں اور آبادیوں سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی آبادکاری اور بحالی کو بھی ایک مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گوادر میں پچیس ہزار ایکڑ زمین نیوی کو دی گئی ہے اور مختلف سیکیورٹی اداروں کو بھی چالیس ہزار ایکڑ زمین دی گئی ہے۔
گوادر چھاؤنی بندرگاہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور بنائی جائے گی۔ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ اس چھاؤنی کا قیام ضرورت نہیں بلکہ اس کے قیام کا مقصد پنجابی آبادکاروں کو تحفظ دینا اور بلوچ تحریک کو دبانا ہے۔
کوئٹہ میں انسانی حقوق کمیشن کے ارکان کا کہنا ہے کہ گوادر بندرگاہ سے جڑے ہوئے ملا بند کے تقریبا تین سو ایکڑ علاقے پر بندرگاہ کی تنصیبات اور پورٹ اتھارٹی بنائی جارہی ہیں۔
اس کے نتیجہ میں پینسٹھ ایکڑ پر پھیلی رہائشی آبادی کے پرانے مقامی لوگوں کے پینتیس خاندانوں کو نہ صرف اپنا گھر بار چھوڑنا پڑرہا ہے بلکہ ان کو متبادل جگہ ملنے کے بارے میں خدشات ہیں۔
اس کے جواب میں سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ بندرگاہ کی تنصیبات کے لیے صرف ایک ہزار ایکڑ زمین کی ضرورت ہے جس میں سے پانچ سو ایکڑ زمین سمندر میں سے حاصل کی گئی ہے جبکہ چار سو ایکڑ سے زیادہ سرکاری زمین ہے اور صرف پچیس ایکڑ رقبہ عوام سے لیا گیا ہے۔
پولیس کی عملداری بلوچستان میں پچانوے فیصد علاقے میں نہیں جسے بی کیٹگری کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ یہاں جہاں لیویز اور سکاؤٹس کا نظام امن و امان کا ذمہ دار ہے۔ صرف شہروں اور قصبوں میں پولیس کا نظام تھا اور اس علاقہ کو اے علاقہ کہا جاتا ہے۔
حال ہی میں گوادرضلع کو مکران، مستونگ، جھل مگسی اور پشین کے ساتھ پولیس کی عملداری میں دے دیا گیا ہے جس سے بھی قوم پرست خاصے نالاں ہیں۔
گوادر کی مقامی انتظامیہ نے صوبائی حکومت سے اس علاقہ میں چھ تھانے بنانے اور ایک سو سے زیادہ پولیس ملازمین تعینات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ڈی سیلینائزیشن پلانٹ کی ضرورت
گوادر میں پینے کے پانی کی شدید کمی ہے اور آبادی میں اضافہ سے یہ مسئلہ اور سنگین ہوگا


بلوچ دانشور
بلوچستان پر بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے قوم پرستوں نے گوادر پر جو مطالبات پیش کیے ان میں کہا گیا کہ گوادر بندرگاہ سے جو بھی محاصل مستقبل میں حاصل ہوں گے وہ تمام بلوچستان کو دیے جائیں اور گوادر پورٹ اتھارٹی کا سربراہ بلوچ ہو اور اس کے بورڈ کے ارکان کم سے کم چھ فیصد بلوچستان سے ہوں۔
قوم پرستوں کا مطالبہ ہے کہ گوادر میں تمام بیرونی سرمایہ کاری متحدہ عرب امارات کی طرز پر ہونی چاہیے جس میں اکیاون فیصد شراکت مقامی لوگوں کی ہو اور باقی انچاس فیصد بیرونی سرمایہ کاروں کا پیسہ ہو اور اگر کوئی سرمایہ کار اس شرط سے اتفاق نہ کرے اور اس کی پابندی نہ کرے تو اسے سرمایہ کاری کی اجازت نہ دی جائے۔
دانشور طاہر محمد خان کا کہنا ہے کہ نقل آبادی کو روکنا ممکن نہیں ہوگا لیکن بلوچوں کے لیے کسی ُکشن کا اہتمام کیاجانا چاہیے۔ ایک اور دانشور شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ بلوچ قبیلے میں روایتی طور تین شرطوں کے تحت کسی شخص کو قبیلہ میں شامل کیا جاتا تھا جن میں ایک شرط ہے کہ وہ قبیلہ کی جنگ میں اس کے ساتھ شانہ بشانہ شامل ہو، دوسرے قبیلہ میں اپنی لڑکی بیاہے اور تیسرے قبیلہ کی لڑکی سے شادی کرے تو قبیلہ کا پانی او زمین میں اس کو حصہ دیاجاتا ہے۔
بلوچ دانشور تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں پاکستان کے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے بلوچ قبیلہ میں شامل ہونے کی شرائط تسلیم کرنا ممکن نہیں لیکن جیسا امریکہ یا دوسرے ملکوں میں نیچرلائزیشن یا شہریت دینے کے لیے کچھ مدت اور شرائط ہیں گوادر میں بھی ایسے قوانین او ضوابط نافذ کیے جانے چاہئیں تاکہ بلوچوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔


Tuesday, 15 August, 2006, 01:52 GMT 06:52 PST



کرپشن اور عدلیہ

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




پاکستان کی عدالت اعظمیٰ کو پچاس برس پورے ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں منعقد کردہ عالمی عدالتی کانفرنس نے قانون کی بالادستی کے ذریعے بہتر حکمرانی کے قیام، احستاب کرنے اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے سمیت تئیس نکاتی ’اسلام آباد ڈکلیریشن‘ منظور کیا ہے۔
اعلامیہ میں بدعنوانی کو سخت تشویش کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’کرپشن دنیا کے تمام ممالک کے لیئے ایک بڑی تشویش کا معاملہ ہے۔‘ اعلامیے کے مطابق کرپشن کو صوابدیدی اختیارات میں کمی، فوری انصاف، مصبوط آزاد عدلیہ کے ذریعے موثر طور پر ختم کیا جاسکتا ہے۔
پیر کو اختتام پذیر ہونے والی چار روزہ یہ کانفرنس ’انصاف سب کے لیئے‘ کے عنوان سے منعقد کی گئی تھی اور اور اس میں دنیا کے چوالیس ممالک سے ایک سو دس مندوب شریک ہوئے۔ ان میں تئیس ممالک کے چیف جسٹس بھی شامل تھے جبکہ امریکہ، بھارت اور برطانیہ سمیت مختلف ممالک کے وفود بھی شریک تھے۔
مندوبین نے انصاف کی جلد فراہمی، آئین اور قانون کی بالادستی، تنازعات کے حل کے متبادل طریقے، ثالثی، بہتر حکمرانی، دہشت گردی، انسانی سمگلنگ اور سائبر جرائم کے خاتمے سمیت مختلف موضوعات پر تفصیلی مقالے پڑھے۔
کانفرنس میں سپریم کورٹ اور چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے ججوں وکلاء تنظیموں کے نمائندوں اور مختلف ماہرین بھی شریک ہوئے اور متفقہ طور پر تئیس نکاتی اعلامیہ کی منظوری دی۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرے اور ماتحت عدالتوں سے بدعنوانی اور بلا جواز دیر کے خاتمے کے لیئے اقدامات کرے۔
اعلامیہ میں بنیادی انسانی حقوق کے معاملات میں سپریم کورٹ کے از خود کارروائی کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ میڈیا نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی میں اہم کردار ادا کیا ہے جس پر عدالت اعظمیٰ نے از خود کارروائی بھی کی ہے جبکہ صنفی امتیاز ختم کرنے، بچوں سے متعلقہ جرائم کا فوری نوٹس لینے اور مقدمات کا فیصلہ سنانے پر زور دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو جب صدر جنرل پرویز مشرف نے آئین معطل کیا تھا تو پاکستان کی عدالت اعظمیٰ کے ججوں نے ان کے اقدام کو ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیتے ہوئے انہیں آئین میں ترامیم کا بھی اختیار دیا تھا اور خود جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ عبوری آئین یعنی ’پی سی او‘ کے تحت حلف اٹھایا تھا۔
بعد میں جب جنرل پرویز مشرف کی متعارف کردہ ترامیم کے ساتھ آئین بحال کیا گیا تو پھر بھی کئی ججوں نے اس کے تحت حلف نہیں اٹھایا اور تاحال ’پی سی او، کے حلف یافتہ ہیں۔


Wednesday, 20 September, 2006, 15:22 GMT 20:22 PST


’مشرف حکومت کرپٹ ہے‘

ذیشان حیدر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




پاکستان میں کرپشن سے متعلق کیئے جانے والے سروے کے مطابق عوام مشرف حکومت کو بےنظیر بھٹو اور نواز شریف حکومتوں سے بھی زیادہ کرپٹ سمجھتے ہیں جبکہ حکومت نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھنے والی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے کروائے جانے والے سروے کے مطابق سڑسٹھ فیصد پاکستانی عوام کا خیال ہے کہ سنہ 2003 سے سنہ 2006 کے دوران مشرف حکومت سب سے زیادہ کرپٹ رہی ہے جبکہ تینتیس فیصد کا کہنا ہے کہ سنہ 1999 سے سنہ 2002 کے دوران یہ زیادہ کرپٹ تھی۔
اس کے مقابلے میں صرف آٹھ فیصد عوام نے بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت جبکہ اڑتالیس فیصد نے ان کے دوسرے دور کو کرپٹ ترین قرار دیا جبکہ نواز شریف کی وزارتِ عظمی کے پہلے دورانیے کو دس فیصد جبکہ دوسرے دور کو چونتیس فیصد افراد نے کرپٹ قرار دیا۔

ملک میں کرپشن کی وجہ کم تنخواہیں، طاقت کا غلط توازن، با اثر افراد، شفاف طریقۂ کار کی عدم موجودگی، اور طلب اور رسد کے نظام میں عدم توازن شامل ہیں


ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان میں سربراہ سعید گیلانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سروے میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے چار ہزار افراد نے شرکت کی اور ان سے حکومت کے دس اداروں کے بارے میں رائے طلب کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ عوامی رائے کے مطابق پارلیمانی نظام حکومت میں کرپشن زیادہ ہوتی ہے کیونکہ سروے کے مطابق بے نظیر اور نواز شریف کے دوسرے ادوارِ حکومت اور موجودہ اسمبلیوں کی تشکیل کے بعد ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔
سعید گیلانی کا کہنا تھا کہ کہ سروے میں شامل افراد نے صوبہ پنجاب کو ملک کا کرپٹ ترین صوبہ قرار دیا اور اس کے بعد سندھ اور بلوچستان کا نمبر ہے۔ سروے کے مطابق صوبہ سرحد میں کرپشن کی سطح سب سے کم ہے۔
سروے کے مطابق پاکستانی عوام کی نظر میں سب سے زیادہ کرپٹ محکمہ پولیس کا ہے جس کے بعد بجلی و پانی، عدلیہ، ٹیکس، کسٹم، ریلوے، صحت اور تعلیم کے محکمے آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عوام کی نظر میں سب سے کم کرپشن بنکاری کے شعبے میں ہے۔ اس سروے کے مطابق ملک میں کرپشن کی وجہ کم تنخواہیں، طاقت کا غلط توازن، با اثر افراد، شفاف طریقۂ کار کی عدم موجودگی، اور طلب اور رسد کے نظام میں عدم توازن شامل ہیں۔

ڈاکٹر شیر افگن
یہ رپورٹ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور ایک مخصوص طبقہ دنیا بھر کے سامنے پاکستان کا برا امیج پیش کرنا چاہتا ہے


اس رپورٹ پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ سراسر بے بنیاد ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے اس رپورٹ کو پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک مخصوص طبقہ دنیا بھر کے سامنے پاکستان کا برا تاثر پیش کرنا چاہتا ہے۔
ڈاکٹر شیر افگن کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر ملک میں ایک حد تک کرپشن موجود ہے اور یہی مسئلہ پاکستان کے ساتھ بھی ہے لیکن سٹیل مل کی نجکای کی منسوخی کے فیصلے پر عملدرآمد اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتِ پاکستان کرپش کے خاتمے کے لیئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔


Monday, 10 April, 2006, 14:17 GMT 19:17 PST



بدعنوانیوں کی تحقیقات کا مطالبہ

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




عراق کے بارے میں اقوام متحدہ کے ’تیل برائے خوراک پروگرام‘ کے تحت تین پاکستانی کمپنیوں کی جانب سے تیل خرید کر پاکستان کو بیچنے کے متعلق تحقیقات کے لیے حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پیر کے روز قومی اسمبلی میں کیے گئے پیپلز پارٹی کے اس مطالبے کی حکمران جماعت مسلم لیگ کے رکن ایم پی بھنڈارا نے تو حمایت کی لیکن کسی وزیر نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین نے الزام لگایا کہ صدر مشرف کے اقتدار کے دوران تین کمپنیوں ’اے اینڈ اے سروسز، اور ’ بی سی انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ، اور آئل اینڈ گیس سروس گروپ نے ایک کروڑ اکیس لاکھ بیرل تیل اڑتالیس کروڑ اسی لاکھ ڈالر میں خریدا اور صدام حکومت کو بیالیس لاکھ چالیس ہزار ڈالر ’سرچارج، ادا کیا۔
انہوں نے ایوان میں حکومتی سرپرستی میں مبینہ بدعنوانی کے متعلق احتجاج کیا اور حکومت پر کڑی تنقید کی اور علامتی واک آؤٹ بھی کیا۔ ان کے واک آؤٹ میں مذہبی جماعتوں کے حزب مخالف کے اتحاد ’متحدہ مجلس عمل، نے حصہ نہیں لیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف، ناہید خان، شیری رحمٰن اور دیگر نے اس موقع پر کہا کہ حکومت بینظیر بھٹو کی کردار کشی کرتے ہوئے ان کا میڈیا ٹرائل کر رہی ہے۔ انہوں نے ’قومی احتساب بیورو، پر بھی نکتہ چینی کی اور کہا کہ یہ ادارہ صرف حکومت کے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے اراکین نے قبل ازیں کراچی میں واقع سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف تحریک التواء پیش کی جس پر سپیکر نے کہا کہ وہ بدھ کے روز اس پر کارروائی کریں گے۔
حزب مخالف کی اس جماعت نے الزام لگایا ہے کہ سٹیل ملز کے پچھہتر فیصد حصص اور آس پاس کی ساڑھے چار ہزار ایکڑ زمین ساڑھے اکیس کروڑ میں توارکی گروپ کو بیچ دیے ہیں۔ ان کے مطابق ’مارکیٹ ریٹ، کے مطابق چھ ارب روپے کم قیمت پر یہ سودا ہوا ہے جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ہے۔
قومی اسمبلی میں پیر کے روز حزب مخالف کی تمام جماعتوں کے نمائندوں نے مسلم لیگ نواز کے جیل میں بند رہنما جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن عبدالرؤف مینگل کو ایوان میں آنے سے روکنے کا معاملہ اٹھایا اور مذمت کی۔
چودھری نثار علی خان، راجہ پرویز اشرف اور لیاقت بلوچ نے کہا کہ سردار اختر مینگل کے گھر کا محاصرہ اب بھی جاری ہے اور وہاں ملاقات کے لیے جانے والے رکن اسمبلی رؤف مینگل کو سیکورٹی اہلکار ایوان کے اجلاس میں شرکت کے لیے آنے کی اجازت نہیں دے رہے۔
انہوں نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کو ایوان میں لانے کے لیے سپیکر نے ’پروڈکشن آرڈر، بھی جاری کیے ہیں لیکن حکومت نے عمل نہیں کیا۔ چودھری نثار علی نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں جتنی پارلیمیٹیرینز کی تضحیک ہوئی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
حکومتی اتحاد میں شامل جماعت متحدہ قومی موومینٹ کے رکن کنور خالد یونس نے بھی اس موقع پر کہا کہ پارلیمینٹیرینز کے ساتھ برا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے رؤف مینگل کو اجلاس میں شرکت کے لیے آنے کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
جس پر سپیکر نے وزیر قانون محمد وصی ظفر سے وضاحت طلب کی تو انہوں نے کہا کہ رؤف مینگل پر پابندی نہیں وہ خود نہیں آنا چاہتے۔ جبکہ ان کے مطابق خواجہ سعد رفیق کو ایوان میں لانے کے بارے میں پنجاب حکومت سے بات ہورہی ہے اور دو روز میں وہ جواب دیں گے۔
واضح رہے کہ خواجہ سعد رفیق کو پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے دوران لاہور میں ہنگاموں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس بارے میں وہ ایوان میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ چکے ہیں کہ وہ ان میں ملوث نہیں لیکن حکومت انہیں پھنسانا چاہتی ہے۔
قومی اسمبلی میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے اراکین محمد حسین محنتی اور اسداللہ بھٹو نے کراچی میں سندھ آبادیوں کو مسمار کرنے کا معاملہ اٹھایا اور الزام لگایا کہ کراچی میں بسنے والے سندھیوں کے خلاف متحدہ قومی موومینٹ یعنی ایم کیو ایم والے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ گوٹھوں میں رہنے والے سندھیوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ نہیں دیا اس لیے اس کی انہیں سزا دی جارہی ہے۔
Friday, 08 July, 2005, 23:05 GMT 04:05 PST



ناظمین کے خلاف مزید مقدمات

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی




پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کی حکومت نے حزب اختلاف کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے حامی دس ناظمین کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمات قومی احتساب بیورو یعنی ’نیب‘ اور انسداد رشوت ستانی کے صوبائی محکمے کو بھیج دیئے ہیں۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صوبے بھر کے ناظمین کے خلاف بدعنوانی کے مختلف الزامات کے تحت تحقیقات کر رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام الرحیم نے صوبے کے تمام اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسلوں کے ناظمین کے خلاف تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی بھی بدعنوانی میں ملوث پایاگیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائےگی۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس کارروائی کے دوران اگر کوئی بھی سرکاری ملازم بدعنوانی میں ملوث پایا گیا تو ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائےگی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق محکمہ بلدیات نے کراچی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان، تین تحصیل اور سات یونین کونسل کے ناظمین کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنس ’نیب‘ اور صوبائی ’اینٹی کرپشن، کے ادارے کو بھیج دیئے ہیں۔
حکومت سفارشات میں کم از کم تین ایسے مقدمات بھی شامل ہیں جو اندرون سندھ کے ناظمین کے خلاف ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے خلاف دو ریفرنس ’نیب‘ کو بھیجےگئے ہیں۔ جن میں ماڈل پارک کی تعمیر اور شہر میں اشتہاری بورڈز پر ٹیکس کی وصولی میں بدعنوانی کے الزامات بھی شامل ہیں۔
ضلع نوشہروفیروز کی تحصیل کنڈیارو، ضلع لاڑکانہ کے شہر ڈوکری اور کراچی کی تحصیل اورنگی کے ناظمین، اور چھ یونین کونسلوں کے ناظمین کے خلاف مقدمات صوبے کی اینٹی کرپشن پولیس کو روانہ کیےگئے ہیں۔
جن ناظمین کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمات بھیجے گئے ہیں ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سے ہے۔
صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے بلدیات، وسیم اختر نے ریفرنسز متعلقہ محکمہ جات کو بھیجنے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب معاملات عدالت میں جائیں گے اور انہیں ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر متعلقہ ناظمین آئندہ مجوزہ انتخابات میں دوبارہ حصہ لیتے ہیں اور فیصلہ ان کے خلاف آیا تو انہیں نااہل قرار دیا جائےگا۔
مشیر کے مطابق اگر یہ لوگ دوبارہ منتخب ہوگئے تو بھی ان کو نا اہل قرار دیا جائے گا۔
دریں اثناء صوبے کی سب سے بڑی عدالت ’سندھ ہائی کورٹ‘ نے ضلع سانگھڑ کے سابق ناظم، روشن جونیجو کو چار سال کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ اس ضلع کے ناظم روشن جونیجو کو تین ماہ قبل تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔


Thursday, 09 December, 2004, 15:40 GMT 20:40 PST



نیب: تقریباً ڈھائی ارب روپے برآمد کیے

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




پارلیمانی امور کے وزیر ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی نے جمعرات کے روز سینیٹ کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو نے سیاستدانوں کے مقابلے میں سویلین اور فوجی افسران سے بدعنوانی کے ذریعے لوٹی ہوئی رقوم زیادہ وصول کی ہے۔
اس پر ایوان میں حزب مخالف کے اراکین نے شیم شیم کے نعرے لگائے اور کہا کہ اس سے ثابت ہوگیا کہ سول اور فوجی افسران سیاست دانوں سے زیادہ بدعنوان ہیں۔
وقفہ سوالات کے دوران حزب مخالف کے سینیٹر ثناء اللہ بلوچ کے سوال کے جواب میں حکومت نے ایوان کو بتایا کہ تاحال سیاستدانوں، سول اور فوجی افسران کی لوٹی ہوئی رقوم میں سے دو ارب چھتیس کروڑ تینتیس لاکھ بیاسی ہزار روپے وصول کیے گئے ہیں۔
وزیر نے ضمنی سوالات کے جواب میں کہا کہ فوج سمیت کوئی بھی احتساب سے بالاتر نہیں ہے اور جس نے بھی کرپشن کی، احتساب بیورو نے اس کے خلاف کارروائی کی۔
ان کے مطابق سابق نیول چیف سمیت بدعنوانی کے مرتکب فوجیوں سے بھی رقوم واپس لی گئی ہیں۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ ’نیب‘ نے اب تک بیوروکریٹس سے ایک ارب سینتالیس کروڑ ساڑھے اڑتالیس لاکھ روپے اور فوجی حکام سے پینتالیس کروڑ سڑسٹھ لاکھ اٹھائیس ہزار روپے وصول کیے ہیں جبکہ سیاستدانوں سے تنتالیس کروڑ اٹھارہ لاکھ بارہ ہزار روپے کی لوٹی ہوئی رقوم واپس لی گئی ہیں۔
وزیر کے مطابق احتساب عدالتوں کی جانب سے عائد کردہ جرمانے کی رقوم کی وصولی مندرجہ بالا رقوم میں شامل نہیں ہے کیونکہ ’نیب، جرمانے کی رقوم وصول ہی نہیں کرتا۔


Thursday, 22 April, 2004, 13:47 GMT 18:47 PST



’لوٹی دولت‘ واپس کی جائے: مشرف

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ترقی یافتہ ملکوں پر زور دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک سے جن لوگوں نے لوٹ کھسوٹ کا جو پیسہ ترقی یافتہ ممالک میں جمع کروا رکھا ہے، اُن کی حکومتیں وہ پیسہ ترقی پذیر ممالک کو واپس کریں۔
جمعرات کے روز بدعنوانی کے خاتمے کے متعلق اقوام متحدہ کے کنوینشن کے عنوان سے منعقد تین روزہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مشرف نے کہا کہ کرپشن میں بڑا حصہ حکمرانوں اور لیڈروں کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، پہلے حکومت یہ سہولیات فراہم کرے پھر ایمانداری کی توقع کرے۔
جنرل مشرف نے کہا کہ دنیا والے کہتے تھے کہ جمہوریت لاؤ، جب انتخابات کرائے تو کرپٹ یا بدعنوان لوگ بھی کافی ووٹ لے کر آگئے اور اب حکومت میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ صدر مشرف کا کہنا تھا کہ وہ اسی لئے یہ کہتے ہیں کہ ہر ملک کی مختلف صورتحال ہوتی ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل مشرف نے کہا کہ ان کے متعارف کردہ اصلاحات کی وجہ سے حکومت کی آمدن بڑھی ہے اور اس سے جلد سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے گا، تا کہ ملازمین کا معیار زندگی بہتر ہو سکے۔
جنرل مشرف نے کہا کہ وہ بجلی فراہم کرنے کے ادارے واپڈا سے اکثر کہتے رہتے ہیں کہ بجلی کی تار میں کنڈا لگا کر بجلی چوری کرنے والے کو نہ پکڑو بلکہ جو امیر لوگ گھر میں دس ایئرکنڈیشنر لگا کر بجلی چوری کر رہے ہیں ان کو گرفتار کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سرکاری ملازمین میں سے دس فیصد مکمل طور پر ایماندار اور دس فیصد کرپٹ یا بدعنوان ہیں، جبکہ اسی فیصد ایسے ہیں کہ موقعہ ملنے پر بدعنوانی کرتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں احتساب کا طریقہ کار، ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک بڑی مثال ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے’ قومی احتساب بیورو‘ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس بیورو کی وجہ سے قومی خزانے میں تین ارب ڈالر کی لوٹی ہوئی رقم واپس جمع ہوئی ہے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پہلے پاکستان کو دنیا میں دوسرے بڑے بدعنوان ملک کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور اب پاکستان بدعنوان ممالک کی فہرست میں بانوے یا ترانوے نمبر پر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حاضر سروس فوجیوں کے خلاف کارروائی ’قومی احتساب بیورو‘ کے دائرہ کار سے باہر اس لیے ہے کہ فوج کے اندر احتساب کا بہترین نظام موجود ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ فوجیوں کو بیورو والے پکڑ سکتے ہیں۔
صدر کا کہنا تھا کہ اب تک ایک سو پینسٹھ سیاستدانوں، تین سو چوالیس سول ملازمین، بارہ ریٹائرڈ فوجیوں اور اکیاسی کاروباری افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔
واضع رہے کہ بیس اپریل کو اس کانفرنس کا جب وزیراعظم نے افتتاح کیا تھا، اس وقت ایک ڈرامہ بھی دکھایا گیا تھا جس میں سیاستدانوں کو بڑا بدعنوان قرار دیا گیا تھا۔ افتتاحی تقریب میں اس ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ یہ بھی تھا کہ جب وزیراعظم ہی کرپٹ ہو تو باقیوں کا کیا ہوگا۔
وزیراعظم نے اپنی تقریر میں صدر مشرف کے بنائے ہوئے احتساب کے قانون میں ثالثی کی شق پر، جس کے مطابق بدعنوان شخص کو لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے پر چھوڑ دیا جاتا ہے، تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ احتساب کے اس قانون کی یہ شق خود بڑی کرپشن ہے۔


Friday, 09 January, 2004, 17:31 GMT 22:31 PST



140 ارب روپے کی وصولی، نیب کا دعوٰی

رفاقت علی
اسلام آباد



پاکستان کے قومی احتساب بیورو کا دعوٰی ہے کہ اس نے اب تک لوٹی ہوئی قومی رقم میں سے ایک سو چالیس ارب روپے وصول کر لئے ہیں ،جن میں دو ارب روپے ملزمان سے ’سودے بازی‘ کے نتیجے میں وصول کیے گیے ہیں۔
سرکاری عہدیداروں سے بدعنوانی کے ذریعے حاصل کردہ رقوم کو واپس لانے کے لیے قومی احتساب بیورو یا نیب انیس سو ننانوے میں قائم کیا گیا تھا۔
پاکستانی فوج کے ایک حاضر سروس جنرل نیب کی سربراہی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ ان کا دعوٰی ہے کہ قومی احتساب بیورو نےاب تک بانوے ارب کی بلاواسطہ وصولیاں کی ہیں۔ اس کے علاوہ پچاس ارب روپے کی بلواسطہ وصولیاں بھی کرائی گئی ہیں جن میں مختلف سر کاری محکموں کے بقایا جات اور بینکوں کے ڈوبے ہوئے ‍قرضے ہیں جو ملک کے با اثر سیاستدان اور صعنت کار بینکوں سے حاصل کرنے کے بعد واپس کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
قومی احتساب بیورو کے اب تک کے بڑے شکاروں میں ایڈمرل منصورالحق بھی شامل ہیں جنہیں کراچی کی ایک احتساب عدالت نے جمعرات کو سات سال کی سزا سنائی ہے۔ اس سے پہلے منصور الحق کو، جنہیں امریکہ سے پاکستان لایا گیا تھا، سات ملین ڈالر کے عوض رہائی ملی تھی لیکن ان کو دوبارہ ایک دوسرے کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔
منصور الحق کو، جو پاکستان بحریہ کے سربراہ رہے ہیں، شکایت ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے کیونکہ حکومت نے سات ملین ڈالر کے عوض ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کرنے ان کو تمام جرائم سے مبرا قرار دیا تھا۔
پاکستان کا احتسابی عمل ہمیشہ سے متضاد رہا ہے اور الزام لگتے رہے ہیں کہ یہ یکطرفہ ہے۔ احتساب کا عمل کا، جسے شروع کرتے ہوئے دعوٰی کیا گیا تھا کہ بیرونی ملکوں میں چھپائےگئے سینکڑوں ارب ڈالر واپس لائے جائیں گے، یہ دعٰوی پورا نہیں ہو سکا اور منصور الحق کی طرف سے سرکاری خزانےمیں جمع کرائے جانےوالے سات میلن ڈالر کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔
ان سات ملین ڈالر میں سے دو ملین ڈالر اس امریکی ادارے کو ادا کر دئیے گئے ہیں جس نے منصور الحق کی امریکہ میں گرفتاری اور بعد میں پاکستان منتقلی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
قومی احتساب بیورو جو وصولیاں کرتا ہے وہ ایک میہنہ تک اپنے اکاؤنٹ میں رکھنے کے بعد سرکاری خزانے میں جمع کرادیتا ہے، لیکن ایسی وصولیاں جو احتساب بیورو سرکاری محکوں کے‏غیر ادا شدہ واجبات کی شکل میں وصول کرتا ہے وہ متعلقہ محکمے کو چلی جاتی ہیں۔
قومی احتساب بیورو پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ وصولیوں کا تمام حصہ سرکاری خزانے میں جمع نہیں کراتا ۔ لیکن نیب کے اہلکار اس بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہیں۔
قومی احتساب بیورو کے دائرہ کار میں پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ لوگ بھی آتے ہیں لیکن ابھی تک سینکڑوں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین کے مقابلے میں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ حاضر سروس فوجی احتساب بیورو کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔
اب تک جن ریٹائرڈ فوجی افسران کے خلاف مقدمے بنے ہیں ان کی تعداد دو درجن سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں بھی اکثر پاکستان بحریہ اور پاکستان فضائیہ کے لوگوں کی ہے۔ ان میں وائس ائر مارشل وقار عظیم اور ایڈمرل منصور الحق سب سے نمایاں ہیں۔ وقار عظیم کو نیب عدالت سے سزا ہوئی تھی لیکن بعد میں ان کو صدر جنرل پرویز مشرف نے معاف کر دیا اور وہ جیل سے باہر خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
احتساب بیورو نے پہلے میاں نواز شریف خاندان کے خلاف بھی کافی مقدمات بنائے تھے لیکن بعد میں ایک معاہدے کے تحت شریف خاندان کے تمام ممبران کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی اور ان کے خلاف تمام مقدمات بند کر دئیے گئے۔اسی طرح اس ادارے نے پاکستان کے دوسرے بڑے امیر خاندان ، چوہدری شجاعت حسین کے خلاف بھی انکوائریاں شروع کی تھیں لیکن فوجی حکومت سے سیاسی تعاون کے بدلے میں اس خاندان کے کسی فرد کے خلاف کوئی مقدمہ شروع نہیں کیا گیا۔
اس ادارے کا ایک اور بڑا نشانہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری ہیں لیکن تمام کوششوں کے باوجود ان کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔



Thursday, 04 December, 2003, 14:59 GMT 19:59 PST



جج بدعنوان ہیں، عدالت عظمیٰ

عدنان عادل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام



پاکستان کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے جمعرات کو لاہور کی عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) کے اس حکم کے حق میں فیصلہ دیا ہے جن میں پنجاب کے نو سول جج صاحبان کو بدعنوان قرار دے کر ان کی ترقی روک لی گئی تھی۔
یہ تمام سول جج پنجاب میں اس وقت بھی اپنے عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ لاہور کی عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) کے سابق چیف جسٹس، جسٹس فلک شیر کے زمانے میں ان جج حضرات کی ترقی ان پر بدعنوان ہونے کے الزام میں روک لی گئی تھی۔ جج حضرات نے ان الزامات کوعدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا۔
آج عدالت عظمیٰ کے فل بینچ نے ان درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ جج حضرات کے تقرر اور ترقی جیسے معاملات خالصتاً عدلیہ کا معاملہ ہے اور ان امور کا انتظامیہ سے کوئی سروکار نہیں۔
پنجاب کے نو سول جج حضرات، ایڈیشنل و ڈسٹرکٹ اور سیشن جج صاحبان اور عدالت عالیہ (لاہور ہائی کورٹ) کی اپیل نمٹاتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ان معاملات میں عدلیہ کی احکامات اور سفارشات ہی حتمی ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ماتحت عدلیہ کے جج حضرات کی کارکدگی کے بارے سالانہ خفیہ رپورٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی۔
عدالت عظمی نے عدالت عالیہ لاہور کی ماتحت عدلیہ کے ججوں کی ترقی روکنے سے متعلق درخواستیں منظور کرلیں۔
عدالت عالیہ لاہور کے سابق چیف جسٹس، جسٹس فلک شیر کے زمانے میں ان جج حضرات پر بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت ان کی سینیارٹی واپس لے لی گئی تھی۔
پنجاب جوڈیشل ٹریبیونل میں اس فیصلہ کے خلاف ایک متاثرہ جج میاں محمد یونس کی اپیل منظور کر لی گئی تھی جسے اب عدالت عظمیٰ نے کالعدم قرار دے دیا ہے اور دیگر جج صاحبان سے متعلق بھی عدالت عالیہ کے احکامات برقرار رکھے۔
متاثرہ جج حضرات میں چودھری بشیر حسین، راؤ محمد اکبر، چودھری محمد حنیف، طاہر پرویز ، ملک اسلم جواد، خالد محمود چیمہ، میاں محمد یونس ، نواز بھٹی اور اعجاز چودھری شامل ہیں۔
متاثرہ جج صاحبان کی وکالت جسٹس (ر) ملک محمد قیوم اور نصیر احمد بھٹہ نے کی جبکہ عدالت عالیہ لاہور کی جانب سے ملک محمد اعظم رسول پیش ہوئے۔
عدالت عظمیٰ کا فل بینچ جسٹس قاضی محمد فاروق، جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس سردار محمد رضا خان پر مشتمل تھا۔


Friday, 06 April, 2007, 11:54 GMT 16:54 PST



سیاستدانوں سے مفاہمت کا پہلا قدم؟

عدنان عادل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور




لاہور میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سیاستدانوں کی بدعنوانی کی تحقیق کے لیے قائم کیے گئے خصوصی شعبہ کا بند ہونا پاکستان میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کے لیے حکومت کی طرف سے عام معافی کی طرف ایک قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اس خصوصی سیل کے بند ہونے سے جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور حزب مخالف کے درمیان مصالحت کی قیاس آرائیوں کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ بے نظیر سے حکومت کی بات چیت کوارٹر فائنل سے بڑھ کر سیمی فائنل میں داخل ہوچکی ہے اور دو تین دنوں تک نتائج سامنے آجائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بے نظیر سے حکومت کا معاملہ ہوا تو حکومت کو ’انہیں کچھ تو دینا پڑے گا‘۔
ساتھ ہی ساتھ شیخ رشید مفاہمت اور ڈیل (سودے بازی) میں فرق بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی بے نظیر سے بات چیت مفاہمت کے لیے ہے ڈیل کے لیے نہیں۔

ڈیل نہیں مفاہمت
حکومت کی بے نظیر سے بات چیت مفاہمت کے لیے ہے ڈیل کے لیے نہیں


شیخ رشید
دوسری طرف حکمران جماعت کے صدر چودھری شجاعت حسین حکومت اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مفاہمت یا ڈیل سے انکار کر رہے ہیں، البتہ ان کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو کو کچھ ڈھیل دی گئی ہے اور ان کے مطالبہ پر ہی لاہور میں نیب کا خصوصی سیل بند کر کے حسن وسیم افضل کو وہاں سے ہٹایا گیا ہے۔
حسن وسیم افضل ڈی ایم جی سروس کے وہ سینئر افسر ہیں جنہوں نے نواز شریف کے دور اقتدار میں سیف الرحمن کی نگرانی میں قائم کیے گئے احتساب بیورو میں کام کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کرنے اور بیرون ممالک ان کے اثاثہ جات کی تحقیق و تلاش کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
یہ سیل ایسے وقت بند کیا گیا ہے جب بے نظیر بھٹو کے خلاف سوئس عدالت میں چلنے والے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہونے والی ہے۔ ابتدائی تفتیش میں سوئس میجسٹریٹ بے نظیر کے خلاف فیصلہ دے چکے ہیں۔
مشرف حکومت نے بقول شجاعت حسین بے نظیر کو ڈھیل دی ہے تب بھی یہ بات تو ثابت ہے کہ فریقین کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے کو جگہ اور رعائتیں دے رہے ہیں۔
تاہم پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیری رحمان نے کسی بھی قسم کی مفاہمت سے انکار کیا ہے، لیکن شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ بات چیت براہ راست بے نظیر سے ہو رہی ہے جس کا پیپلز پارٹی کے دوسرے درجے کے رہنماؤں کو علم نہیں۔
سیاسی مفاہمت کی حقیقت جو بھی ہو نیب کے سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں کی تفتیش سے متعلق خصوصی سیل کے بند ہونے سے یہ عندیہ تو ملتا ہے کہ مشرف حکومت حزب مخالف کے سیاستدانوں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی کا عمل ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے۔
سیاستدانوں کی تحقیقات کے بارے میں نیب کا جو سیل بند کیا گیا ہے اس کا اثر صرف بے نظیر نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں پر پڑسکتا ہے اور اگر حکومت حزب مخالف کی ایک رہنما کے لیے گنجائش نکالتی ہے تو حزب اختلاف کے دوسرے سیاستدانوں کو بھی کچھ نہ کچھ رعایت ملنے کا امکان پیدا ہوگا۔
جلاوطن سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے سربراہ نواز شریف کی قطر کے حکمرانوں کے ذریعے مشرف حکومت سے بات چیت کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں تاکہ وہ تین سال بعد دس سال کی پابندی ختم ہونے سے پہلے اور عام انتحابات کے موقع پر ملک واپس آسکیں۔
نواز شریف کے قریبی ساتھی سیف الرحمنٰ قطر کے شہزادہ طلال کے پاکستان میں نمائندہ ہیں جن کا ان رابطوں میں کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔

قطر کے حکمران اور افوائیں
نواز شریف کی قطر کے حکمرانوں کے ذریعے مشرف حکومت سے بات چیت کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں


دوسری طرف اگلے روز گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول (ریٹائرڈ) بھی دبئی روانہ ہوئے ہیں جن کے اس دورہ کو نواز شریف کی مشرف حکومت سے بات چیت کے پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔
اگر مشرف حکومت دو سیاسی جماعتوں کے قائدین بے نظیر اور نواز شریف کو ملک واپس آ کر عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے تو پھر اسے برابری کا تصور قائم رکھنے کے لیے تیسری سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کی وطن واپسی کے لیے بھی رعائتیں دینا پڑیں گی۔
انہیں متعدد مقدمات میں فوری طور پر بری نہ بھی کیا جائے تو ان مقدمات میں ان کی ضمانت کی جا سکتی ہے۔
اگر پاکستان میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کے لیے عام معافی کا ماحول بننے جا رہا ہے تو وہ سب اس سال کے آخر تک متوقع عام انتخابات میں شریک ہوسکیں گے اور الیکشن کے منصفانہ ہونے کا تاثر بھی بن سکے گا۔


Sunday, 30 September, 2007, 20:31 GMT 01:31 PST



ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نثار کھوکھر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سکھر




جنرل ضیاالحق کے دور میں چلنے والی تحریک برائے بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی کے دوران سندھ کے ضلع نواب شاہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی چوبیسویں برسی تیس ستمبر کو گاؤں پنہل خان چانڈیو میں منائی گئی۔
سنہ انیس سو تراسی انتیس ستمبر کے روز ایم آر ڈی کے سترہ کارکنوں کو نواب شاہ میں فوجیوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
برسی کی تقریب سے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نثار احمد کھوڑو، جام سیف اللہ دھاریجو، غلام قادر چانڈیو اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔
مقررین نے اپنے خطاب یہ بیان ضرور دہرایا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے سر کٹانا سیکھا ہے جھکانا نہیں، مگر انہوں نے نواب شاہ میں جمہوریت کے لیے جان کی قربانی دینے والوں کے مقدمات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
چوبیس سال قبل جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف صرف ستمبر کے مہینے میں سندھ کے دو اضلاع دادو اور نواب شاہ میں تیس سیاسی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا۔ جن میں نواب شاہ کے گاؤں پنہل خان چانڈیو کے سترہ افراد بھی شامل تھے۔
تینتالیس سالہ انور خاصخیلی بھی اس جلوس میں شریک تھے جو ان کے بقول گاؤں والوں نے ضیاء آمریت کے خلاف نکالا تھا۔ وہ قومی شاہراہ پر قرآن خوانی کر رہے تھے کہ فوجیوں کی گاڑیاں پہنچ گئیں۔انور بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی میر محمد اور ماموں زاد بھائی علی گل جلوس پر فوجیوں کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے سترہ افراد میں شامل تھے۔

کہےسنے بغیر
پانچ گاڑیوں میں میں سوار فوجیوں نے بلا کچھ پوچھے یا کہے جلوس کے شرکاء پر فائرنگ شروع کر دی اور پھر زخمیوں گاڑیاں چڑھا دیں


انور خاصخیلی
انور اسے اپنی زندگی کا بدترین دن قرار دیتے ہیں۔ ’پانچ گاڑیوں میں سوار فوجیوں نے بلا کچھ پوچھے یا کہے جلوس کے شرکاء پر فائرنگ شروع کر دی اور پھر زخمیوں پرگاڑیاں چڑھا دیں۔ وہ لاشیں ساتھ لےگئے تھے ۔۔۔ غالباً قریبی نہر روہڑی کینال میں پھینکنا چاہتے تھے مگر پھر پتہ نہیں کیسے انہیں خیال آ گیا اور لاشیں واپس کر دیں۔‘
انور ان سو کے قریب افراد میں شامل تھے جنہیں فوج نےگرفتار کر لیا تھا۔ انور کے مطابق فوجیوں نے انہیں ٹرک میں ڈال کر ان کے اوپر ڈیکوریشن کے ٹینٹ ڈال دیے اور فوجی ان ٹینٹوں کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
انور کا کہنا ہے کہ فوج کے ہاتھوں جو تذلیل ہوئی وہ اورگاوں والے اسے کبھی بھی نہیں بھلا سکتے۔ ’میرے چھ بچے ہیں لیکن میں ان میں سے کسی کو بھی فوجی نہیں بننے دونگا۔‘
قومی شاہراہ کے قریب نواب شاہ کے اس چھوٹے سےگاؤں میں کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں ستمبر کی وہ رات اچھی طرح یاد ہے جب ان کے پورے گاؤں میں کسی ایک گھر میں بھی کھانا نہیں پکا تھا۔ سارا گاؤں سوگ میں تھا۔ انہیں لاشیں ملنے یا نہ ملنے کی فکر لاحق تھی۔
ان افراد میں رانجھو چانڈیو بھی شامل ہیں، جنہیں یہ فکر تھی کہ فوجی کہیں گرفتار سو افراد کو بھی ہلاک نہ کردیں۔
ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جلوس نکالنے کے جرم میں ہلاک کر دیے گئے سترہ افراد کے ’قتل‘ کا مقدمہ کہیں درج ہوا؟
برسی کی تقریب میں شرکت کے لیے گاؤں پنہل چانڈیو جاتے ہوئے یہ سوال تمام راستے مجھے ستاتا رہا اور جب میں وہاں پہنچا پی پی پی سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی غلام قادر چانڈیو سے پہلا سوال یہ ہی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقدمہ تو ضرور درج ہوا لیکن فوج کی طرف سے گاؤں والوں کے خلاف۔ ’ہماری درخواست تو وصول ہی نہیں کی گئی اور سترہ افراد کے قتل کا مقدمہ آج تک درج نہیں ہوا۔‘
غلام قادر کے والد پنہل خان چانڈیو اس واقعے میں ایک سو کے قریب کارکنان کے ہمراہ گرفتار ہوگئے تھے، انہیں فوجیوں نے نو ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔
اس وقت تو جنرل ضیاء کا مارشل لاء تھا مگر بعد میں اپنے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی نے کارکنوں کے اس ’قتلِ عام‘ کا مقدمہ کیوں نہ درج کرایا؟
غلام قادر چانڈیو کا کہنا تھا کہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا تھا مگر انہیں کہا گیا کہ ’ملکی مفاد کی خاطر پارٹی نے سوچا ہے کہ کیس کو دوبارہ نہ ہی کھولا جائے۔‘

بےنظیر بھٹو اور ملکی مفاد
محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا تھا مگر انہیں کہا گیا کہ ملکی مفاد کی خاطر پارٹی نے سوچا ہے کہ کیس کو دوبارہ نہ ہی کھولا جائے


غلام قادر چانڈیو
قادر چانڈیو نے کہا: ’ہماری تو خواہش ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس سمیت تمام سیاسی کیس دوبارہ چلائے جائیں مگر پارٹی کے احکامات کا احترام ضروری ہے۔‘
نواب شاہ کے پنہل چانڈیو گاؤں کے لوگ شروع سے ہی پیپلز پارٹی کے کارکن ہیں، انہیں قربانیوں کا صلا انصاف کی بجائے چند ایک معمولی ملازمتوں، کچھ نقد رقوم اور سرکاری حج کوٹا کی صورت میں دیا گیا۔
نواب شاہ کے اس چھوٹے سے گاؤں سے واپس آتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ کیا گاؤں کے سترہ لوگوں نے اپنی جانیں صرف چند نوکریوں کے لیے قربان کی تھیں؟ اور کیا پیپلز پارٹی ان ’جمہوریت کے پروانوں‘ کی یاد میں کوئی ایک یادگار بھی تعمیر نہیں کروا سکتی تھی؟ ایسی یادگار ملکی مفاد کے خلاف ہوگی یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے؟


Friday, 14 April, 2006, 09:03 GMT 14:03 PST



اسلام آباد: فوج کے لیئے مزید زمین

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




پاکستان کے وزیرِ دفاع راؤ سکندر اقبال نے جمعہ کے روز قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسلام آباد میں فوجی ہیڈ کوارٹر کے لیے مجموعی طور پر دو ہزار چار سو اڑتیس ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ہے۔
خالدہ محسن قریشی کے سوال کے تحریری طور پر پیش کردہ جواب میں انہوں نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت کے تین سیکٹروں میں فوج کو الاٹ کردہ اس زمین میں سے ایک ہزار چار سو تیس ایکڑ زمین رہائشی کمپلیکس اور ایک ہزار آٹھ ایکڑ دفاتر کے لیئے ہے۔
بحریہ اور فضائیہ کے ہیڈ کوارٹر اور رہائشی کمپلیکس پہلے ہی اسلام آباد میں تعمیر کیئے جا چکے ہیں جبکہ اب بری فوج اور تینوں مسلح افواج کے مشترکہ ادارے کے ہیڈ کوارٹر اب تعمیر ہونا ہیں۔
بری افواج نے پہلے گیارہ سو پینسٹھ ایکڑ اراضی مانگی تھی اور بعد میں ایک ہزار پچاسی ایکڑ مزید زمین طلب کی تھی لیکن جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں پیش کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بری فوج نے مزید ایک سو اٹھاسی ایکڑ زمین الاٹ کرا لی ہے۔
جمعہ کے روز پیش کردہ معلومات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ فوج کو کس قیمت پر یہ زمین فراہم کی گئی ہے لیکن اس سے پہلے پارلیمینٹ کو بتایا گیا تھا کہ ایک ہزار پچاسی ایکڑ زمین چالیس روپے فی مربع گز اور باقی اراضی ڈیڑھ سو روپے فی مربع گز کی قیمت پر دی گئی ہے۔
وزیر دفاع کے مطابق سیکٹر ’ای ٹین‘ میں گیارہ سو پندرہ ایکڑ اور سیکٹر ’ڈی الیون‘ میں تین سو پندرہ ایکڑ زمین رہائشی تعمیرات کے لیئے جبکہ ’ای نائن‘ اور ’ای ٹین‘ کے شمال میں ایک ہزار آٹھ ایکڑ دفاتر کے لیئے الاٹ کی گئی ہے۔

تینوں مسلح افواج میں سے بحریہ اور فضائیہ کے ہیڈ کوارٹر اور رہائشی کمپلیکس پہلے ہی اسلام آباد میں تعمیر کیئے جا چکے ہیں جبکہ اب بری فوج اور تینوں مسلح افواج کے مشترکہ ادارے کے ہیڈ کوارٹر اب تعمیر ہونا ہیں۔


واضح رہے کہ فوج کو جن سیکٹروں میں نہایت سستے داموں یہ زمین دی گئی ہے ان سے ملحقہ نجی رہائش والے سیکٹروں میں ایک ہزار گز کے پلاٹ کی موجود قیمت تین سے پانچ کروڑ روپے تک ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے دفاعی بجٹ کا ماضی میں جب بھی ’آڈیٹر جنرل آف پاکستان‘ نے سالانہ آڈٹ کیا ہے تو کوئی سال ایسا نہیں جس میں انہوں نے کروڑوں روپوں کی بدعنوانی کی نشاندہی نہ کی ہو۔
’آڈیٹر جنرل آف پاکستان‘ جہاں دفاعی بجٹ میں بدعنوانی کی نشاندہی کرتا رہا ہے وہاں دفاعی مقاصد کے لیے حاصل کردہ زمین تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر بھی اعتراضات لگاتے ہوئے حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ فوج کو ایسا کرنے سے روکے لیکن تاحال کسی حکومت نے اس پر کارروائی نہیں کی۔
یاد رہے کہ اسلام آباد میں ’ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی‘ کے لیئے مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ریٹ پر جو سینکڑوں ایکڑ زمین الاٹ کی گئی ہے وہ ’جی ایچ کیو‘ اور فوجیوں کے رہائشی کمپلیکس کے علاوہ ہے۔


Sunday, 04 June, 2006, 14:34 GMT 19:34 PST



پاکستان سٹیل ملز: نجکاری کیوں؟

میلکولم بورتھ وک
ایشین بزنس رپورٹ ایڈیٹر بی بی سی ورلڈ، پورٹ محمد بن قاسم




پاکستان سٹیل ملز اپنی تکمیل کے بعد سے خسارے میں تھی لیکن جب اس نے گزشتہ سال ریکارڈ پیداوار، ریکارڈ فروخت اور ریکارڈ منافع شروع کیا تو اس کی نجکاری کر دی گئی۔
بیس سال قبل سوویت یونین کی مالی اور تکنیکی مدد سے بننے والی سٹیل ملز نے جس کا شمار پاکستان کے انتہائی بڑے منصوبوں میں ہوتا ہے، ایک طرح اپنا فطری دائرہ مکمل کر لیا کیونکہ اسے ایک روسی کنسورشیم کے ہاتھ فروخت کیا گیا ہے۔
ملز کی یونینوں نے اس نجکاری کی مزاحمت اور مخالف کی تھی۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث مباحثہ ہوا اور حزبِ اختلاف نے واک آؤٹ کیے۔
حزبِ اختلاف کا کہناتھا کہ حکومت کو اپنے 75 فیصد حصص 362 ملین ڈالر کے عوض دے کر اس ادارے کی نجکاری نہیں کرنی چاہیے اور اس اہم اثاثے کا انتظام اپنے پاس رکھنا چاہیے۔
انیس سال تک ملز کی کارکردگی خراب رہی ہے لیکن گزشتہ سال سے اس نے ریکارڈ پیداوار اور منافع دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس منافع کی وجہ ملک کے اندر قیمتوں اور مانگ میں اضافہ تھا جس کے نتیجے میں ملز کی انتظامیہ کو مزید سرمایہ کاری، قرضوں میں کمی اور بنکوں کو ادا کیے جانے والے سود کی ادائیگیوں میں کمی کی سہولت میسر آئی۔

اس کے علاوہ گزشتہ پانچ سال کے دوران سٹیل ملز نے آلات اور مشینوں کی جدید کاری پر بھی توجہ دی جس کے نتیجے میں اس نے افرادی قوت میں 35 فیصد کی کمی بھی کر لی۔
اس مل کو منافع میں لانے کا سہرا لیفٹیننٹ جنرل رعبدالقیوم کے سر بندھا جو ڈھائی سال قبل ملز کے چیئرمین بنائے گئے تھے۔
جنرل قیوم کا کہنا ہے کہ 1981 میں ملز کی پیداوار شروع کرنے کے بعد سے اب تک کمپنی میں کوئی دو درجن کے قریب چیئرمین آئے ہیں لیکن انہوں اپنی طرف سے کمپنی کو جس حد تک ممکن تھا آگے لے جانے کی کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا ہے’ہمیں فخر ہے کہ ہم کمپنی کو منافع میں لائے اور نجی مالکان کے حوالے کر رہے ہیں، جو دراصل فولادی لوگ ہیں، وہ اس میں مزید سرمایہ کاری کریں گے اور کاکردگی کو مزید مؤثر بنا کر زیادہ منفع بخش بنائیں گے‘۔
لیکن کمپنی کے منافع میں آنے کے اور بھی اسباب ہیں 2004 سے 2006 کے دوران پاکستان میں پیداوار اور تعمیرات کے شعبوں میں سٹیل کی مانگ بالترتیب بارہ اور چھ فیصد بڑھی ہے اور سٹل ملز پوری گنجائش کے مطابق کام کرنے پر بھی ملک کی ایک چوتھائی مانگ پوری کرتی ہے۔
نجکاری اور جدید کاری پر یونین اہلکاروں کے مطابق ملازمین کو پریشانی ہے اور کراچی کے صحافی بابر ایاز کا کہنا ہے ’خودکار مشینوں کے باعث ملازمتوں کے مواقع اتنے پیدا نہیں ہو رہے اور اور یہ یقیناً سماجی تشویش کا ایک اہم پہلو ہے‘۔

بابر ایاز اس اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کہ ’نجکاری کے نتیجے میں آئندہ چند سال کے دوران دس ارب ڈالر سرمایہ کاری آئے گی‘۔
اگرچہ پاکستان میں نجکاری کا آغاز سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ہوا لیکن موجودہ وزیراعظم شوکت عزیز پاکستان میں نجکاری کی ابتداء کرنے والوں میں سے ہیں اور ان کے اس دور میں نجکاری کی رفتار کچھوے کی چال سےخرگوش کی چھلانگ میں تبدیل ہوئی۔
وزیراعظم شوکت عزیز کو بیرونی سرمایہ کار احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ نجکاری کے ذریعے اس سال پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ جو پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہو گی۔
اس سب کے باوجود امن و امان کی حالت کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچاتے ہیں۔ انہیں حالات مستحکم دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف خود چار سال کے دوران تین قاتلانہ حملوں سے بچ چکے ہیں اور وزیراعظم شوکت عزیز پر بھی قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے جس میں ان کا ڈرائیور اور دیگر آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ان تمام باتوں کے باوجود اگر پاکستان میں نجکاری کامیابیاں حاصل کرتی ہے تو پاکستان کو ریسٹرکچرنگ اور جدید کاری کے نتیجے میں ہونے والی بے روزگاری کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا کیونکہ نجکاری کے بعد جن لوگوں کو فارغ کیا جائے گا انہیں گولڈن ہینڈ شیک یا متبادل روزگار کے لیے صرف دو فیصد رقم مختص کی گئی ہے۔ لیکن اصل چیلنج اس اس تجربہ کار افرادی قوت کا دوسرے شعبوں میں کارآمد استعمال ہے۔


Wednesday, 21 June, 2006, 14:04 GMT 19:04 PST



سٹیل ملز املاک کا تعین کرائیں‘

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ سٹیل ملز کی املاک کا از سر نو اندازہ لگانے کے لیے حکومت کو ہدایت کی جائے۔
یہ استدعا انہوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم نو رکنی بینچ کے سامنے بدھ کے روز سٹیل ملز کی نجکاری کے خللاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران اپنے دلائل سمیٹتے ہوئے دی۔
جس پر بینچ کے رکن جج جسٹس جاوید اقبال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ حکومت کو اگر دوبارہ املاک کی قیمتوں کے تعین کرنے کے لیئے کہا جائے گا تو وہ غیرجانبدارانہ بنیاد پر رپورٹ دیں گے۔اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ عدالت اس مقصد کے لیے غیر جانبدارانہ کمیشن مقرر کرے۔
اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ نجکاری قانون کے تحت ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں عدالتیں اہم امور کی تفتیش اور تحقیقات کے لیے حکومتوں کو ہدایت کرتی ہیں۔

اٹارنی جنرل
ملز کے خریدار تین کمپنیوں کے کنسورشیم سے حکومت نے تحریری طور پر یہ عہد لیا ہے کہ وہ قوم اور شہریوں کے مفادات کا خیال رکھیں گے اور پچیس کروڑ ڈالر کا سرمایہ لگائیں گہ تاکہ بتدریج سٹیل کی سالانہ پیداوار ایک ملین ٹن سے بڑھا کر تین ملین ٹن کی جاسکے۔


جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ حکومت خود اس مقدمے میں فریق ہے اور عدالت حکومت کو کیسے عدالتی اختیار دے سکتی ہے۔ جس کا اٹارنی جنرل نے واضح جواب نہیں دیا۔
مخدوم علی خان نے ایک موقع پر کہا کہ حکومت نے سٹیل ملز منافع کمانے کے لیے نجی شعبے کے حوالے نہیں کی بلکہ اس کی کارکردگی بڑھانے کے لیے ایسا کیا ہے۔ ان کے مطابق اگر درخواست گزاروں کی یہ بات ایک لمحے کے لیے مان بھی لی جائے کہ حکومت نے نجکاری میں سٹیل ملز کی کم قیمت وصول کی ہے تو وہ بھی ملکی مفاد میں ہے کیونکہ یہ ملز پاکستان میں ہی رہے گی۔
ان کے مطابق ملز کے خریدار تین کمپنیوں کے کنسورشیم سے حکومت نے تحریری طور پر یہ عہد لیا ہے کہ وہ قوم اور شہریوں کے مفادات کا خیال رکھیں گے اور پچیس کروڑ ڈالر کا سرمایہ لگائیں گہ تاکہ بتدریج سٹیل کی سالانہ پیداوار ایک ملین ٹن سے بڑھا کر تین ملین ٹن کی جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ چھتیس برس قبل سٹیل ملز لگی تھی اور ابتدا میں منافع میں چلتی رہی لیکن بعد ازاں خسارے میں چلی گئی۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف درخواست گزاروں کے لیے درست قانونی فورم سندھ ہائی کورٹ تھا لیکن وہ براہ راست سپریم کورٹ میں آئے ہیں۔
انہوں نے منگل کے روز عدالت سے استدعا کی تھی کہ سٹیل ملز کی نجکاری کو مسترد یا منظور کرنے کے بجائے عدالت درمیانہ راستہ اختیار کرے اور بدھ کے روز درمیانے راستے کی تجویز انہوں نے ملز کی املاک کی قیمت کا از سر نو تعین کرانے کی صورت میں پیش کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے نو رکنی بڑے بینچ کو ایک ماہ ہونے کو ہے کہ اس مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ حکومت نے نجکاری کو درست قرار دلانے کے لیے چار وزراء قانون کی خدمات حاصل کر رکھیں جن میں سید شریف الدین پیرزادہ، عبدالحفیظ پیرزادہ، وسیم سجاد اور کمال اظفر شامل ہیں۔ جبکہ ایک اور وزیر قانون خالد انور کو نئے خریداروں نے اپنا وکیل مقرر کرر کھا ہے۔
عدالت نے سماعت جمعرات کے روز تک ملتوی کردی اور اب درخواست گزاروں کے وکلا حکومتی وکلا کے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیں گے۔
واضح رہے کہ حکومت نے ملک کے سب سے بڑے صنعتی ادارے سٹیل ملز کے پچہتر فیصد حصص بمع انتظامیہ اکیس ارب سڑسٹھ کروڑ روپوں میں فروخت کی ہے۔ سٹیل ملز کی مزدور تنظیموں اور پاکستان وطن پارٹی نے اُسے چیلینج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ جو اراضی سٹیل ملز کے پلانٹ کے ساتھ بیچی گئی ہے صرف اس زمین کی قیمت ڈھائی سو ارب روپے بنتی ہے۔


Thursday, 20 July, 2006, 11:51 GMT 16:51 PST



لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے

اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے پر جہاں مل کی بٹھیوں میں کام کرنے والے مزدور بے حد خوش نظر آتے ہیں وہاں ایئر کنیڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے افسران بھی مطمئن ہیں۔
پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری ، اس کی مخالفت اور پھر سپریم کورٹ کا نجکاری کے کالعدم قرار دینے سے پاکستان میں نجکاری کی عمل ایک نئی صورت خال اختیار کر گیا ہے۔ ہر کوئی سوال اٹھا رہا ہے کہ ’اب کیا ہو گا‘۔
حکومتی اہلکار پہلے بھی کہتے رہیں ہیں کہ اس طرح کا اقدام غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیئے کوئی اچھی خبر نہیں ہو گا اور اس سے ان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ لیکن اس کے برعکس حزبِ اختلاف اور سٹیل ملز کی نجکاری کے مخالف سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے خوش ہیں اور اسے سچائی کی فتح کے مترادف دیکھا جا رہا ہے۔
ملک کے تجارتی دارالحکومت کراچی میں واقع سٹیل ملز میں خام لوہا بنانے والے کارخانے میں ایک بڑا پانا کندھے پر اٹھائے ہوئے مزدور پرویز احمد کہتے ہیں کہ ’صاحب سپریم کورٹ والوں کا اللہ بھلا کرے کہ نجکاری رُک گئی ہے‘۔
لیکن کیا نجکاری واقعی رک گئی ہے؟ اس کا جواب تقریباً ہر کسی کو معلوم ہے اور وہ نہ میں ہے۔
چند روز پہلے تک جب مقدمہ چل رہا تھا تو مزدور رہنماؤں کے مطابق سٹیل ملز کے بیشتر مزدوروں میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت طاری تھی۔ لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ فی الحال خطرہ ٹل گیا ہے۔ مزدور تنظیموں کی ایکشن کمیٹی کے ایک سرکردہ رہنما عبدالستار بٹ نے خدشہ ظاہر کیا کہ نئے خریدار بیشتر ملازمین کو فارغ کرتے اور یہی وجہ تھی کہ مزدور چھانٹی کے ڈر سے خوفزدہ تھے۔
سٹیل کہانی
روس کے تعاون سے انیس سو تہتر میں بننے والی پاکستان سٹیل ملز کا سنگِ بنیاد تو اس وقت کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا لیکن جب ملز کا تمام کام مکمل ہوگیا تو انیس سو پچاسی میں افتتاح فوجی صدر ضیاءالحق نے کیا تھا۔

ابتدا سے تاحال سٹیل ملز کے چیئرمین چاہے وہ ریٹائرڈ فوجی ہوں یا سویلین بیوروکریٹ ان پر بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات کے ساتھ مقدمات بھی بنتے رہے اور ملک کی سب سے بڑی فولاد تیار کرنے والی یہ صنعت اکثر اوقات خسارے میں رہی اور اِس خسارے کی وجہ سے ہی حکومت نے سٹیل ملز کو نجی شعبے کے حوالے کیا۔ جسے سپریم کورٹ نے کاالعدم قرار دیا۔
سٹیل ملز کی نجکاری کے بارے میں بہت سارے سوالات اٹھائے گئے اور حزب مخالف کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور مزدور تنظیموں نے اس قومی اثاثے کو منظور نظر افراد کے ہاتھوں اونے پونے داموں فروخت کرنے کے الزامات لگائے۔ تاہم حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی رہی۔
حکومت نے سٹیل ملز کے پچہتر فیصد حصص بمع انتظامیہ اکیس ارب سڑسٹھ کروڑ روپے میں سعودی عرب کی کمپنی التوارقی، روس کی کمپنی میگنیٹو گورسک اور پاکستان کے عارف حبیب پر مشتمل کنسورشیم کو فروخت کردی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ میں دلائل کے دوران مزدوروں کے وکلاء نے کہا تھا کہ ساڑھے چار ہزار ایکڑ کے قریب جو زمین سٹیل ملز کے پلانٹ کے ساتھ بیچی گئی ہے صرف اس کی قیمت ڈھائی سو ارب روپے بنتی ہے۔
سٹیل ملز کے موجودہ چیئرمین عبدالقیوم نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ نجکاری میں ملز کی قیمت کا تخمینہ لگاتے وقت زمین کی قیمت نہیں لگائی گئی تھی۔ ان کے مطابق سٹیل ملز لگانے پر چوبیس ارب روپے خرچ ہوئے اور ڈالرز کی قیمت پہلے کم ہونے کی وجہ سے ڈالر ٹرم میں اس کی لاگت دو ارب ڈالر بنتی ہے جبکہ نجکاری میں بولی چھتیس کروڑ بیس لاکھ ڈالر لگائی گئی۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ملز کی خریداری میں نادانستہ طور پر بے قائدگی ہوئی اور اُسے آپ ’کمیشن یا اومیشن‘ جو بھی کہیں وہ ایماندارنہ تصور کی جائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ’ایماندارانہ غلطی‘ کس نے کی۔
حزب مخالف کے رہنما کہتے رہے ہیں کہ چین سے ریلوے کے انجن اور بوگیاں خریدنے سے لے کر سٹیل ملز کی نجکاری تک جہاں بھی اربوں روپے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا معاملہ آتا ہے تو حکومت کہتی ہے کہ اُسے ’ایماندارانہ غلطی، یا Honest mistake or Mistake in good faith مانا جائے۔ ان کے بقول ایسا اس لیئے کہا جاتا ہے کہ ایسی غلطیوں میں ریٹائرڈ فوجی شامل ہوتے ہیں پھر وہ چاہے لیفٹیننٹ جنرل ( ر) جاوید اشرف قاضی ہوں یا عبدالقیوم۔

ایماندارانہ غلطی
اُسے آپ ’کمیشن یا اومیشن‘ جو بھی کہیں وہ ایماندارنہ تصور کی جائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ’ایماندارانہ غلطی‘ کس نے کی


چیئرمین پاکستان سٹیل عبدالقیوم

حکومت کی شفاف نجکاری کے متعلق حزب مخالف، مزدور یونین اور دیگر متعلقہ افراد یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ جب صدر جنرل پرویز مشرف کے سن دو ہزار تین میں دورہ روس میں سٹیل ملز کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیئے یاداشت نامے پر دستخط ہوئے اور متعلقہ کمپنی نے دو ہزار چار میں سولہ کروڑ ڈالر لگانے کی پیش کش کی اور پلاننگ کمیشن یکم فروری دو ہزار پانچ تک اس کی حمایت کرتا رہا اور سٹیل ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی اس کی حمایت کی تو پھر اچانک وزیراعظم شوکت عزیز نے دس فروری کو ملز کا بورڈ کیوں توڑ دیا؟

سٹیل کا کاروبار کرنے والے ممریز خان کہتے ہیں کہ سٹیل ملز کی عجلت میں نجکاری کی مخالفت کرنے والے بورڈ کے اراکین کو ہٹاکر سات فروری کو نیا بورڈ بنایا گیا اور دس فروری کو وزیراعظم نے نئے بورڈ کے اراکین سے ملاقات میں کہا کہ اس ملز میں سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں یہ ’فاسٹ ٹریک پرائویٹائیزشن پروجیکٹ‘ ہے۔
ان کے مطابق روس کی کمپنی کے علاوہ چین اور آسٹریلیا کی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کرنے اور ملز کی پیداواری گنجائش بڑھانے کی پیش کش بھی کی لیکن حکومت نے انہیں بھی ٹال دیا۔
انہوں نے بتایا کہ جب وزیراعظم نے فاسٹ ٹریک نجکاری کی بات کی تو اس وقت کے نجکاری کے متعلق وزیر حفیظ شیخ بھی جلد بازی میں سٹیل ملز کی نجکاری کی مخالفت کرتے رہے اور جب انہوں نے وزارت چھوڑ دی تو سٹیل ملز کی نجکاری کا عمل اچانک تیز ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وزیرِ نجکاری نہیں تھا تو سٹیل ملز کی بولی کی تاریخ کس نے اور کیوں طے کی؟
انہوں نے دستاویز فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ اکتیس مارچ کو ملز کے فروخت کی بولی ہونی تھی اور تیس مارچ کو ٹیلی کمیونیکشن کے وزیر اویس لغاری کو نجکاری کا اضافی چارج دیا گیا اور منظورِ نظر کنسورشیم کو کامیاب بولی دہندہ قرار دیتے ہوئے آدھے گھنٹے میں ’لیٹر آف ایکسیپٹنس‘ جاری کیا گیا۔
نجکاری کے قوانین کے مطابق کامیاب بولی دہندہ کو بولی بڑھانے کا کہا جاتا ہے اور کسی بھی بولی کی منظوری پہلے نجکاری بورڈ سے حاصل کی جاتی ہے اور بعد میں کابنیہ کی نجکاری کمیٹی سے توثیق کرائی جاتی ہے۔ لیکن سٹیل ملز کے کیس میں ایسا نہیں ہوا۔ حکام کہتے ہیں کہ اس ’شفاف نجکاری‘ کی سیکریٹری نجکاری کمیشن تحسین اقبال نے بھی مخالفت کی تھی لیکن یکم اپریل کو ان کا تبادلہ ہوگیا۔
یہ سب سوالات جب نجکاری کے وزیر زاہد حامد سے پوچھے تو انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ قانون کے مطابق اور مجاز حکام کی منظوری سے ہوا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ سیکریٹری نجکاری کے تبادلے کا سٹیل ملز سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹیل ملز کی نجکاری میں قانونی کوتاہیوں کی تحقیقات کا آغاز عدالت کے تفصیلی فیصلے کے بعد ہوگا۔
یاد رہے کہ حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما کہتے رہے ہیں کہ سٹیل ملز خریدنے والے کنسورشیم میں شامل عارف حبیب نے وزیراعظم شوکت عزیز کی انتخابی مہم چلائی تھی اور لاکھوں روپے بھی خرچ بھی کیئے تھے۔
( آئندہ قسط میں آپ سٹیل ملز میں بدعنوانی اور خسارے کے بارے میں پڑھ سکیں گے کہ اٹھارہ ارب روپے کی کرپشن ہوئی کہ نہیں اور احتساب بیورو نے اس کے متعلق کیا کیا؟)


Wednesday, 18 April, 2007, 12:46 GMT 17:46 PST



چیف جسٹس کے ساتھ کب کیا ہوا؟

رفاقت علی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن




نو مارچ:
صدر مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ چیف جسٹس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ ریفرنس دائر ہونے کے ساتھ ہی چیف جسٹس کو گھر میں بند کر دیا گیا۔ چیف جسٹس کے گھر کی طرف جانے والے تمام راستوں پر پولیس تعینات کر دی گئی۔
نو مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس سپریم کورٹ میں ہوا جس کی سربراہی اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال نے کی۔ کونسل نے بند کمرے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک دیا اور ریفرنس کی اگلی سماعت تیرہ مارچ کو کرنے کا فیصلہ کیا۔
دس مارچ:
حکومت نے چیف جسٹس کے زیر استعمال گاڑیاں لفٹر کے ذریعے اٹھا لیں۔ ملک بھر میں وکلاء نے چیف جسٹس کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف تین روز مکمل ہڑتال کی اور پورے ملک میں سراپا احتجاج بنے رہے۔
تیرہ مارچ:
’غیر فعال‘ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سامنے پیشی پر پولیس کی طرف سےمہیا کی جانے والی گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ وہ پیدل سپریم کورٹ جائیں گے۔انتظامیہ اور پولیس کے اہلکاروں نے چیف جسٹس کو زبردستی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی جس دوران چیف جسٹس سے بدسلوکی کا واقعہ پیش آیا۔
جسٹس افتخار سپریم جوڈیشل کے سامنےپیش ہوئے اور کونسل کے پانچ میں سے تین اراکان پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال سپریم جوڈیشل کی سربراہی کے اہل نہیں ہیں جبکہ جسٹس عبدل الحمید ڈوگر (جج سپریم کورٹ) اور جسٹس افتخار حسین چودھری (چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) کے خلاف شکایات سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رجسٹر ہوچکی ہیں لہذا انہیں ان سے انصاف ملنے کی توقع نہیں ہے۔ مقدمے کی سماعت سولہ مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔
سولہ مارچ:
چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کو بتایا کہ ان کو اور ان کے اہل خانہ کو گھر میں مقید کر دیا گیا ہے ۔ کونسل نےحکم جاری کیا ہے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے اہل خانہ کی نقل و حرکت پر تمام پابندیاں ختم کی جائیں اور وہ جس شخص سے ملنا چاہیں مل سکتے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے ذرائع ابلاغ کو بھی خبردار کیا کہ وہ جسٹس افتخار کے معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔
سترہ مارچ:
صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد کو ’جبری چھٹی‘ پر بھیج دیا۔ چیف جسٹس کو جبری چھٹی پر بھیجنے کا فیصلہ انیس سو اکہتر میں بنانے جانے والے ایک قانون کے تحت کیا۔
اکیس مارچ:
حکومت نے ملک بھر میں وکلاء اور دوسرے طبقوں کی طرف سے شدید احتجاج اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرنے کے اعلان کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ایک ’انتظامی‘ حکم کے ذریعے دس روز تک ملتوی کر دیا گیا۔
چوبیس مارچ:
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس رانا بھگوان داس چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس آگئے اور قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لے لیا۔
اٹھائیس مارچ:
جسٹس افتخار نے اپنی نقل و حرکت پر پابندیوں کو اٹھائے جانے کے بعد سب سے پہلے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کی ہائی کورٹ سے خطاب کیا۔ جسٹس افتخار نے کہا کہ ظلم پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔
تیس مارچ:
جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف الزامات کی سماعت کے لیے بنائی جانے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور تین مختلف وکلاء نے اپنے طور پر دائر کی جانے والی پیٹشنوں میں موقف اختیار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو چیف جسٹس کے خلاف کارروائی کا حق حاصل نہیں ہے۔
تین اپریل:
جسٹس رانا بھگوان داس کے قائم مقام چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی از سر نو تشکیل کی گئی جس کے بعد کونسل کا اجلاس ہوا جس کی سربراہی جسٹس رانا بھگوان داس نے کی۔ اس سماعت میں جسٹس افتخار کے خلاف کارروائی بند کمرے یا کھلی عدالت میں کروانے سے متعلق بحث ہوئی اور کونسل نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
تیرہ اپریل:
سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ کونسل کی کارروائی کو بند کمرے میں یا کھلی عدالت میں کرنے سمیت دوسرے اعتراضات پر وکلاء کے دلائل سننے کے بعد تمام ابتدائی نکات کا فیصلہ ایک ہی دفعہ کیا جائے گا۔
اٹھارہ اپریل:
سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد جسٹس افتخار کے وکلاء نے بتایا کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو سماعت کے دوران بتایا کہ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کونسل کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے اس لیے اگر مناسب سمجھیں تو کارروائی کو آگے نہ چلائیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے سماعت چوبیس اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔
جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف اختیارات کا ناجائز استعمال کےالزامات کی سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔

Friday, 06 April, 2007, 17:10 GMT 22:10 PST



نجکاری کمیشن کو عدالتی نوٹس

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی




سندھ ہائی کورٹ نے نجکاری کمیشن کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے اٹک گروپ کو پاکستان سٹیٹ آئل کی نجکاری میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جمعہ کو جسٹس مسز قیصر اقبال نے نجکاری کمیشن کے بورڈ کوتوہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت گیارہ اپریل تک ملتوی کردی ۔
جمعرات کو نجکاری کمیشن کے ایک اجلاس میں اٹک گروپ کو پاکستان سٹیٹ آئل کی نجکاری میں بولی دینے سے نااہل قرار دیا تھا جس کو اٹک گروپ نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عارف خلجی نے تیس مارچ کواٹک گروپ کو نجکاری میں بولی دینےکا اہل قرار دیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے پاکستان نجکاری کمیشن اور وفاقی حکومت کو پابند بھی کیا تھا کہ وہ اس فیصلے پر عمل کریں۔
لیکن جمعرات کو وفاقی وزیر نجکاری زاہد حامد کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اٹک گروپ کو ایک دستاویز (سٹیٹمنٹ آف کوالیفیکیشن میٹریل انفارمیشن) نہ فراہم کرنے کی بنیاد پر کمیشن نےنااہل قرار دے دیا تھا۔
ملک میں تیل کا کاروبار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی پاکستان سٹیٹ آئل کی نجکاری مئی کے پہلے ہفتے میں کی جائے گی۔
کمپنی کے اکاون فیصد انتظامی شیئرز کے لئے بولی میں شامل ہونے کے لئے سات گروپوں کو اہل قرار دیا گیا تھا جن میں فوجی فاونڈیشن سمیت ملکی اور غیرملکی گروپ شامل ہیں۔

Wednesday, 02 August, 2006, 15:40 GMT 20:40 PST



سٹیل مل: ازسرِنو نجکاری منظور

فراز ہاشمی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




جنرل مشرف کے سات سالہ دور میں بدھ کو اسلام آباد میں پہلی مرتبہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سٹیل ملز کی از سرنوِ نجکاری کی منظوری دی گئی۔
اس آئینی ادارے کے اجلاس میں وزیر اعظم کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائےاعلٰی نے بھی شرکت کی۔
صوبائی رابطوں کے وزیر سلیم سیف اللہ خان نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا کہ اس اجلاس میں حکومت کی نجکاری کی پالیسی کی منظوری دینے کا ایک نکاتی ایجنڈہ پیش کیا گیا۔
سلیم سیف اللہ خان نے کہا کہ وزیرِاعلٰی سرحد نے نجکاری کے حوالے سے کچھ تحفظات پیش کیئے تھے جنہیں دور کر دیا گیا۔ذرائع کے مطابق سرحد کے وزیرِاعلٰی اکرم خان درانی نے منافع بخش سرکاری صنعتوں کو بیچنے کی مخالفت کی تھی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف دائر کیئے جانے والے مقدمے میں حکومت سے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کو بلا کر آئینی تقاضے کو پورا کرنے کو کہا تھا۔ مشترکہ مفادات کونسل وہ آئینی ادارہ ہے جسے انیس سو تہتر کے آئین کے تحت صوبوں کے باہمی اور وفاق کے ساتھ معاملات کو طے کرنے کے لیئے قائم کیا گیا تھا اور اس کا اجلاس منعقد کرنا آئین کے تحت لازمی ہے۔
تہتر کے آئین کے تحت قائم ہونے والے اس ادارے کا پہلا اجلاس اگست انیس سو پچھہتر میں ہوا تھا جو تین دن تک جاری رہا تھا اور اس کے بعد سے اب تک مشترکہ مفادات کونسل کے صرف گیارہ اجلاس ہو پائے ہیں۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کا آخری اجلاس انیس سو اٹھانوے میں ہوا تھا۔
سی سی آئی کے اجلاس کے بعد کابینہ کا اجلاس بھی ہوا۔ اس اجلاس میں لبنان پر اسرائیلی جارحیت اور حملوں میں معصوم شہریوں اور بچوں کی ہلاکتوں کی بھی مذمت کی گئی۔ کابینہ نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے لبنان کی حکومت اور لوگوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ کابینہ نے اقوام متحدہ، اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ لبنان میں جنگ بندی اور امن کی بحالی کے لیئے اپنا کردار ادا کریں۔
وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے اجلاس کے بعد اخبار نویس کو بتایا کہ حکومت پاکستان نے لبنان کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کے لیئے امدادی اشیاء اور دوائیوں سے بھرے چار سی ون تھرٹی طیارے لبنان بھیج دیئے ہیں۔
وفاقی کابینہ نے خواتین کے تحفظ کے لیئے ایک بل کی بھی منظور دی جو بہت جلد پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
ایم کیو ایم کے صوبائی اور وفاقی وزراء اور مشیروں کے استعفوں کا معاملہ بھی کابینہ میں زیر بحث آیا اور وزیراعظم نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم سے ہونے والی بات چیت سے کابینہ کو آگاہ کیا۔ محمد علی درانی نے کہا کہ وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے کے جلد حل ہونے کی امید ظاہر کی۔ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ سرکاری اتحاد میں شامل تمام جماعتوں سے ہر پندرہ دن بعد ایک ملاقات کی جائے گی۔

تعمیِر نو میں تاخیر، ملازمتوں میں کمی

ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ضلع مانسہرہ




پاکستان کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں قدرتی آفت کے فورا بعد امدادی سرگرمیوں کے لیئے درجنوں کی تعداد میں جب غیرسرکاری تنظیموں نے ان علاقوں کا رخ کیا تو اس سے علاقے میں بڑی تعداد میں نوکریاں پیدا ہوئیں۔ لیکن امدادی مرحلے کے خاتمے اور تعمیر نو کے آغاز میں تاخیر سے ملازمتوں کی تعداد میں وقتی طور پر کمی آئی ہے۔
آٹھ اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں اور ملبہ ہٹانے کے لیئے ہزاروں کی تعداد میں افراد کی ضرورت تھی۔
امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کا کہنا ہے کہ اس نے متاثرہ علاقوں میں تیس ہزار ملازمتیں پیدا کیں۔ ملازمتوں کے اس طرح کے یقیناً بے پناہ مواقع پیدا ہوئے لیکن ماہرین کے مطابق یہ عارضی ملازمتیں تھیں۔
امدادی مرحلے کے خاتمے پر بڑی تعداد میں غیرسرکاری تنظیمیں واپس لوٹ گئیں جس سے متاثرہ علاقوں کے افراد پھر سے بے روزگار ہوگئے ہیں۔ مانسہرہ کے جمیل تنولی چار برسوں سے بے روزگار ہیں۔ ان کو ایک فائل بغل میں دبائے ایک غیرسرکاری تنظیم کے دفتر کا دروازہ کھٹکھٹاتے دیکھا تو اس کی وجہ دریافت کی۔
تاریخ میں ایم اے کی ڈگری رکھنے والے جمیل نے بتایا کہ امدادی کارروائیوں کے دوران انہیں عارضی ملازمت ملی تھی لیکن اب وہ مستقل نوکری کی تلاش میں یہاں آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلع مانسہرہ کے پچاس فیصد بے روزگار نوجوانوں کو امدادی کارروائیوں کے سلسلے میں نوکریاں ملی تھی جبکہ اتنے ہی ابھی بھی بےروزگار ہیں۔
ان پچاس فیصد کی بے روزگاری کی ذمہ داری انہوں نے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں اقربا پروری اور سفارش کو قرار دیا۔ ’یہاں تو ٹیسٹ انٹرویو والی بات ہے نہیں۔ اکثر تعلقات پر بات چلتی ہے۔‘

امدادی مرحلے کے خاتمے پر بڑی تعداد میں غیرسرکاری تنظیمیں واپس لوٹ گئیں جس سے متاثرہ علاقوں کے افراد پھر سے بے روزگار ہوگئے ہیں



مستقبل کے بارے میں جمیل کچھ زیادہ پُرامید نہیں تھے۔ ’ممکن ہے کوئی موقع مل جائے۔ لیکن جس انداز سے چل رہا ہے مجھے نہیں معلوم آگے کیا ہوگا’۔
گڑھی حبیب اللہ کے گل صنوبر کو شکایت تھی کہ زلزلے کے بعد تعمیراتی کاموں کے لیئے تو اب مزدور بھی میسر نہیں۔ ’ایک تو مہنگائی اور دوسرا اب دو اڑھائی سو میں بھی کام کے لیئے مزدور نہیں ملتا۔‘
ماہرین کے خیال میں ابتدائی ہنگامی حالات میں جو ملازمتوں میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا وہ اب یقینا کم ہوگا تاہم تعمیر نو کے آغاز سے ایک مستقل سطح پر آ کر رک جائے گا۔ یہ سطح توقع ہے کہ آئندہ چار پانچ برس تک برقرار رہے گی۔
صوبہ سرحد میں امدادی تنظیم آکسفیم کے پروگرام مینیجر ادریس خان سے ملازمتوں کی مجموعی صورتحال پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ امدادی مرحلے کے بعد اب امدادی تنظیمیں تعمیر نو کے لیئے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ جب یہ مرحلہ شروع ہوگا تو تمام شعبوں خصوصاً تعمیرات کے شعبے میں بہت سی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
ایک سوال کے جواب میں کہ آیا یہ سب ملازمتیں مقامی افراد سے پر ہوں گی یا باہر سے بھی لوگ لائے جائیں گے، تو ادریس کا کہنا تھا کہ انہیں اب بھی ہنر مند افراد کی کمی کا سامنا ہے۔ ’اس میں کسی حد تک تو مقامی سطح پر ملتے ہیں لیکن ہائی سکیلڈ لیبر یعنی انجینئر وغیرہ انہیں باہر سے لانے پڑتے ہیں۔‘
اب تک پیدا ہونے والے ملازمتوں کے مواقعوں میں کتنے فیصد مقامی اور کتنے باہر سے لائے گئے ہیں اس بارے میں کوئی باقاعدہ سروے موجود نہیں ہے۔ نہ کوئی ایسے اعداو شمار دستیاب ہیں جن سے یہ دیکھا جا سکے کہ اس تمام بحران کے دوران کتنی ملازمتیں پیدا ہوئیں اور ان میں سے کتنی مقامی اور کتنی باہر کے لوگوں کو ملیں۔
آوکسفیم کے محمد ادریس کا بھی کہنا تھا کہ اس سلسلے میں کوئی اعدادوشمار دینا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غیرسرکاری تنظیموں کو اگر مقامی سطح پر مناسب افراد ملتے ہیں تو وہ ان کو ترجیح دیتی ہیں لیکن اگر انہیں میسر نہیں تو پھر باہر سے ہی لانے پڑتے ہیں۔ ’حالانکہ اس سے ان پر اضافی بوجھ اس طرح پڑتا ہے کہ ان کی رہائش کا خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے اور باہر کے لوگوں کو مقامی حالات سے آگہی بھی نہیں ہوتی۔‘
متاثرہ علاقوں کی بحالی میں یہ ملازمتیں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں لیکن تعمیر نو کے بعد یہ لوگ کہاں جائیں گے اس پر بھی یقیناً غور کی ضرورت ہے۔

Sunday, 08 October, 2006, 13:36 GMT 18:36 PST



مارگلہ ٹاورز: زلزلہ اور بعد کے گواہ

ذیشان حیدر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




پاکستان میں گزشتہ برس آنے والے زلزلے کو آج ایک برس پورا ہوگیا ہے لیکن اسلام آباد کے مارگلہ ٹاورز کی ادھوری عمارت آج بھی اپنے مکینوں کی تباہ حالی کی گواہی کے طور پر موجود ہے۔
کبھی وہ بھی مارگلہ ٹاور کے رہنے والے تھے

آٹھ اکتوبر سنہ دو ہزار پانچ کے زلزلے کی شدت اور تباہی کی پہلی نشانی منہدم شدہ مارگلہ ٹاورز کی تصاویر کی صورت میں ہی عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا تک پہنچی تھی لیکن شاید بعد میں سامنے آنے والی تباہی کی تفصیلات اتنی ہولناک تھیں کہ لوگ اس ابتداء کو بھول سے گئے۔
مارگلہ ٹاورز کے بلاک کے گرنے سے چوہتر افراد ہلاک جبکہ نواسی زخمی ہوئے تھے اور اس زلزلے کی پہلی برسی کے موقع پر اس سانحے میں زخمی ہونے والے افراد اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی یاد میں جہاں جمعرات کی رات تباہ شدہ عمارت کے پاس شمعیں روشن کیں وہیں آٹھ اکتوبر کی صبح یہ تمام افراد ٹھیک اس وقت اس عمارت کے سامنے جمع ہوئے جب ایک برس قبل زلزلے کے ایک ہی جھٹکے نے ان کی زندگی بدل ڈالی تھی۔
اس مختصر تقریب میں ہلاک شدگان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی اور بچوں نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی یاد میں تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر گلدستے رکھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ مملکت سینیٹر طارق عظیم کا کہنا تھا کہ ان افراد کا غم بہت بڑا ہے جنہوں نے گزشتہ برس کے زلزلے میں نہ صرف اپنے اہلِ خانہ کو کھویا بلکہ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں وہ اپنے گھر بار سے بھی محروم ہو گئے۔
زلزلہ متاثرین کی امداد اور بحالی کے عمل میں شریک عالمی امدادی اداروں کی جانب سے بھی زلزلے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد منانے اور متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے کوارڈینیٹر برائے انسانی امداد ژاں ویندرموٹیل کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ نہ صرف اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے افراد کو یاد کریں بلکہ ہمارا اصل مقصد تاحال مدد کے منتظر افراد کو یقین دلانا ہے کہ ہم انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم مل کر ان افراد کی مدد کریں گے جو تیزی سے آنے والی سردی سے بچاؤ کے لیے امداد کے منتطر ہیں اور یہی نہیں بلکہ تعمیرِ نو اور بحالی کے امر میں بھی ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے‘۔

Monday, 09 October, 2006, 08:47 GMT 13:47 PST



امدادی ادارے، جنسی استحصال کے الزام

ذوالفقار علی
بی بی سی ، اردو ڈاٹ کام ، مظفرآباد




پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ملکی اور غیر ملکی امدادی تنظیموں میں کام کرنے والی بعض مقامی خواتین نے الزام لگایا ہے کہ منتظمین نے انہیں جنسی طور پر حراساں کرنے کی کوشش کی۔ ایسی تنظیموں میں ملکی اور غیرملکی دونوں طرح کے ادارے شامل ہیں۔
تہمینہ شگفتہ ان مقامی خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ زلزے کے ایک ماہ بعد شگفتہ ایک غیر ملکی امدادی تنظیم میں چھ ماہ کے کانٹریکٹ پر بطور ہائیجین پروموٹر بھرتی ہوئی تھیں۔
زلزلے کا ایک سال

شگفتہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ضرورت کے پیش نظر نوکری حاصل کی۔ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ میرے لیئے یہی ملازمت دہشت ناک تجربہ ( نائٹ مئیر ) ثابت ہوگا‘۔
کشمیر کے قدامت پسند معاشرے میں بہت سارے ایسے بھی خاندان ہیں جن کو خواتین کا مردوں کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں۔ لیکن زلزے کے بعد لوگوں کو اپنی زندگیاں نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیئے پیسوں کی ضرورت ہے اور ان میں سے کئی خاندانوں نے خواتین کو امدادی اداروں میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
یہ خاندان اس لیئے بھی اپنی خواتین کو اجازت دینے پر مجبور ہوگئے کیوں کہ امدادی اداروں کی طرف سے ملازمتوں کے لیئے شائع کئے جانے والے اشتہارات میں یہ خاص طور پر درج ہوتا ہے کہ ملازمتوں کے لیئے خواتین کی طرف سے درخواست دینے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
لیکن تہمینہ شگفتہ اور ان کی ساتھی خواتین کا دوسری خواتین کے لیئے رول ماڈل بننے کا خواب ان کے مرد ساتھیوں نے چکنا چور کرکے رکھ دیا۔ شگفتہ کو کام کے دوران اپنے بعض پاکستانی اور غیرملکی مرد ساتھیوں کی طرف سے جنسی پیش رفت کو مسلسل روکنا پڑا۔
شگفتہ کہتی ہیں کہ ’مجھے پیسوں ، تحائف اور یہاں تک کہ اچھی پوزیشن کی پیشکش کی جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ میں ان کے ساتھ شہر سے باہر سفر کروں اور ان کے ساتھ رات کو ٹھہروں۔ لیکن مجھ سمیت زیادہ تر لڑکیوں نے ایسی پیش کش کو رد کردیا‘۔
یہ پیشکش صرف ان ہی کو نہیں کی جاتی بلکہ اس ادارے میں کام کرنے والی دوسری مقامی لڑکیوں کو بھی اس طرح کے مسائل کا سامنا رہا۔
لیکن شگفتہ کہتی ہیں: ’ کچھ مقامی خواتین اس میں پھنس گئیں اور میرا خیال ہے کہ کچھ نے مجبوری میں یہ پیش کش قبول کی کیوں کہ ان کو اپنے خاندان کی کفالت کے لیئے نوکری کی ضرورت تھی۔ شاید ان کو یہ بھی خدشہ تھا کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں‘۔

نائٹ میئر۔۔۔
’میں نے ضرورت کے پیش نظر نوکری حاصل کی۔ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ میرے لیئے یہی ملازمت نائٹ مئیر ثابت ہوگا‘۔


شگفتہ

شگفتہ کا کانڑیکٹ اپریل میں ختم ہونے والا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ ’امدادی تنظیم میرے کانٹریکٹ کی تجدید کرنا چاہتی تھی اور تنظیم نے مجھے میری مرضی کی نوکری کی پیشکش بھی کی تھی لیکن میں نے یہ پیشکش قبول نہیں کی اور اسی طرح سے کئی اور لڑکیوں نے بھی نوکری چھوڑ دی‘۔
اس تنظیم میں کام کرنے والے ایک نوجوان شگفتہ کی بات سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں یہ حالات دیکھ کر دل برداشتہ ہوگیا اور دو ماہ بعد میں نے نوکری چھوڑ دی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’بعض مرد اپنے ساتھ نیند کی گولیاں بھی رکھتے لیکن مجھے نہیں معلوم وہ کس لیئے یہ گولیاں ساتھ رکھتے تھے‘۔
بعض اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ بعض امدادی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والی کچھ لڑکیاں دفتری اوقات یا سیر کے دوران بے ہوش ہوئیں۔
اس نوجوان کا کہنا ہے:’مجھے اس وقت بہت صدمہ پہنچا جب ایک امدادی کارکن نے ایک لڑکی کو زبردستی اپنی طرف کھینچا اور اپنی بانہوں میں لے لیا اور وہ بے بس اور مجبور لڑکی سوائے رونے کے کچھ نہ کرسکی‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں اس لڑکی کی بے بسی بھول نہیں سکتا ہوں اور اب یہ میرا مشن بن گیا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو سبق سکھادوں‘۔
اگرچہ بہت ساری چھوٹی امدادی تنظیمیں ریلیف کا فیز ختم ہونے کے بعد واپس چلی گئیں لیکن پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں اب بھی لگ بھگ ایک سو ملکی اور غیر ملکی امدادی تنظیمیں بحالی اور تعمیر نو کے کاموں میں مصروف ہیں جن میں سینکڑوں مقامی لڑکیاں کام کرتی ہیں۔
شگفتہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سنا ہے کہ دوسری امدادی تنظیموں میں بھی اسی طرح کا ماحول ہے اور میرا خیال ہے کہ ان تنظیموں میں کام کرنے والی لڑکیاں غیرمحفوظ ہیں‘۔
مقامی لڑکیوں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کی خبروں کے بعد کشمیر کے اس علاقے میں امدادی تنظیموں کی موجودگی کے خلاف عوامی رد عمل بڑھتا جارہا ہے اور لوگوں اور امدادی تنظیموں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ مذہبی لوگوں سے لے کر اعتدال پسندوں تک لگ بھگ ہر طبقہ فکر امدادی تنظیموں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔
جنوبی ضلع باغ میں مذہبی، سیاسی اور طلبہ تنظیموں نے امدادی تنظیموں کے خلاف متفقہ طور پر مظاہرے کیے اور وہ مسلسل یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ امدادی تنظیمیں مقامی خواتین کو بھرتی نہ کریں اور یہ کہ ان مقامی لڑکیوں کو نوکریوں سے فارغ کریں جو پہلے سے ہی ان تنظیموں میں کام کر رہی ہیں‘۔
باغ شہر میں ایک اہم مذہبی رہنما عطااللہ شاہ نے کہا کہ ’امدادی تنظیمیں ہماری ثقافت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ہمارے روایتی اسلامی معاشرے میں بے حیائی پھیلا رہی ہیں‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان میں کام کرنے والے بعض مرد ایسی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہیں جو اسلامی تعلیمات، اخلاقی اقدار اور مقامی روایات سے مطابقت نہیں رکھتیں‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’امدادی تنظیمیں ہماری مجبور اور غریب لڑکیوں کا استحصال کررہی ہیں، ان کو جنسی طور پر ہراساں اور بلیک میل کیا جاتا ہے، ان کو بے راہ روی کی ترغیب دی جارہی ہے اور ورغلایا جارہا ہے‘۔
اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے والے ایک ڈاکڑ یہ مانتے ہیں کہ لوگوں کے کچھ خدشات ٹھوس بنیادوں پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ’ لڑکیوں کو کم مدت کے کنڑیکٹ پر بھرتی کیا جاتا رہا ہے اور زیادہ تر لڑکیاں نئی اور غیرہنرمند ہیں اور ان کو ہمیشہ نوکری کھوجانے کا ڈر لگا رہتا ہے اور یوں کچھ لڑکیاں اپنی نوکریوں کو بچانے کے لیئے انتظامیہ کے عہدیداروں کی ہر بات ماننے کے لیئے تیار ہوجاتی ہیں‘۔
ایک اور این جی او میں کام کرنے والی لڑکی آسیہ کہتی ہیں کہ ’یوں لگتا ہے کہ امدادی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اداروں میں ہر طرف گدھ امڈ آئے ہیں۔
میں مظفرآباد میں اقوام متحدہ کے احاطے میں کلسڑ میٹنگ میں جایا کرتی تھی تو وہاں اقوام متحدہ کی ایـجنسیوں کے ساتھ کام کرنے والے بعض پاکستانی مردوں نے مجھ سے ٹیلیفون نمبر مانگے تاکہ رابطے میں رہ سکیں۔ میں نے یہ خیال کیے بغیر کہ ان کے ارادے کیا ہیں ان کو اپنا موبائل نمبر دے دیا۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب ان میں سے کچھ نے مجھے اکثر فون کرنا شروع کیا اور میرے ساتھ فلرٹ کرنے، چال باز خوش آمد اور چکنی چپڑی باتیں کرنے کی کوشش کی‘۔
وہ کہتی ہیں: ’مجھے مجبوراً اپنا موبائل نمبر تبدیل کرنا پڑا‘۔
لوگوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ امدادی تنظیموں میں کام کرنے والی بعض لڑکیاں دیر سے گھر آتی ہیں جبکہ ان کے دفتری اوقات شام پانچ بجے تک ہیں اور یہ اعتراض بھی کیا جارہا ہے کہ لڑکیوں کو ملازمتوں میں ترجیح دے کر جان بوجھ کر اس علاقے کے ثقافتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
کشمیر کے متاثرہ علاقوں میں کام کرنی والی ایک غیرملکی تنظیم آکسفیم کے ترجمان شاہین چغتائی کا کہنا ہے کہ آکسفیم کی انتظامیہ کو مارچ میں مظفرآباد کے دفتر میں کام کرنے والے عملے کے بعض مرد اور خواتین کے بارے میں نامناسب رویے اور جنسی بے راہ روی کی شکایات ملیں۔ تحقیقات میں یہ پایا گیا کہ زیادہ تر الزامات بے بنیاد تھے لیکن بیان کے مطابق عملے کے کچھ لوگوں کا بظاہر اس طرح کا طرز عمل تھا جس سے دوسرے افرادگمراہ ہوئے ہوں۔ لیکن انہوں نےاس کی وضاحت نہیں کی۔

ترجمان کے تحریری جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ مظفرآباد میں عملے میں شامل ایک مرد اور ایک خاتون کا ایک شادی کی تقریب میں اس طرح کا رویہ تھا جو ثقافتی لحاظ سے نامناسب تھا اور عملے کے دوسرے لوگوں نے بھی اس کو دیکھا۔
ان کا کہنا ہے کہ’ اگرچہ یہ واقعہ دفتری اوقات کے بعد ایک نجی تقریب میں پیش آیا لیکن ترجمان کا کہنا تھا چونکہ یہ آکسفیم کے قوائد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی تھی اس لیئے ان دونوں کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا‘۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ آکسفیم کے اپنے عملے کے لیئے سخت قوائد و ضوابط ہیں اور اگر عملے کے کسی شخص کے خلاف بد اخلاقی کی کوئی شکایت ہوتی ہے تو اس کی تحقیقات کی جاتی ہیں۔
تاہم لوگ ایسے بیانات سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس روایتی معاشرے میں لڑکیاں عمومی طور پر اپنی اور اپنے خاندان والوں کی عزت کی خاطر خاموش رہتی ہیں۔
لیکن شگفتہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اس لیئے بولنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ شاہد اس سے امدادی تنظیموں میں کام کرنے والی دوسری خواتین کی کچھ مدد ہوسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ امدادی تنظیموں میں خواتین محفوظ نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے کسی امدادی تنظیم میں کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔
ایک اور غیرملکی تنظیم کے ساتھ کام کرنے والی خاتون زینب کہتی ہیں کہ’بعض پاکستانی مرد ساتھیوں کارویہ انتہائی نامناسب ہوتا ہے۔ ہمارے گھر کیا تباہ ہوئے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنا سب کچھ پیش کرنے کے لیئے تیار ہیں‘۔
مذہبی رہنما عطااللہ شاہ کا کہنا ہے کہ اسلام لڑکیوں کا غیر محرموں کے ساتھ میل جول سختی سے منع کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بعض اوقات خواتین کو کئی کئی دنوں تک گھر سے دور غیر محرموں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اور یہی میل ملاپ تمام برائیوں کی جڑ ہے‘۔
مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اعتدال پسند جماعتیں بھی امدادی تنظیموں سے نالاں ہیں۔ خود مختار کشمیر کی حامی ایک تنظیم کے رہنما عارف شاہد کا کہنا ہے کہ این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین کو ان کے مرد عملے کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی اطلاعات اتنی زیادہ ہیں کہ امدادی اداروں کا وجود روز بروز ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرے لیکن مظفرآباد اور اسلام آباد کی حکومتوں نے متاثرہ علاقوں میں اپنے بجٹ سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا اور کشکول اٹھا کر بھیک مانگ رہے ہیں اور کشمیر کو امدادی تنظیموں کے حوالے کردیا ہے‘۔
سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کے اس علاقے میں عام لوگوں میں بھی امدادی تنظیموں کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ شہر باغ کے ایک دکاندار خان سلیم خان کا کہنا ہے کہ ’امداد کے نام پر ہماری عزتوں کو روندا جارہا ہے۔ ہمیں اپنی عزت کی قیمت پر کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔یہ امدادی تنظیمیں اپنا بوریا بستر لپیٹیں اور یہاں کے لوگوں کو خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونے دیں‘۔
کشمیر کے اس علاقے میں اب یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ امدادی تنظیموں میں زیادہ سے زیادہ مقامی لوگ بھرتی کیے جائیں اور خواتین کی جگہ مردوں کو نوکریاں دی جائیں کیونکہ ان غیر معمولی حالات اور علاقے کی جغرافیائی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مرد ہی بہتر طریقے سے کام کرسکتے ہیں۔


Wednesday, 26 July, 2006, 16:49 GMT 21:49 PST



میگا کرپشن آف مشرف گورنمنٹ‘

فراز ہاشمی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) نے موجودہ حکومت کے سات سالہ دور کے دوران ہونے والے مبینہ بدعنوانی کے کیسوں پر بدھ کو اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد کیا۔
’میگا کرپشن آف مشرف گورنمنٹ‘ کے عنوان سے ہونے والے اس سیمینار میں مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے ایک درجن سے زیادہ ایسے کیسوں کے بارے میں سیمینار کے شرکاء کو آگاہ کیا جن میں ان کے مطابق اربوں روپے کے گھپلے ہوئے ہیں۔
اس سیمینار میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ایڈمرل ریٹائرڈ جاوید اقبال، مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق اور مسلم لیگ(ن) خواتین ونگ کی صدر عشرت اشرف نے بھی شرکت کی۔
سیمینار میں احسن اقبال نے مبینہ کرپشن کے کیسوں کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا جبکہ دیگر رہنماؤں نے سیاسی تقاریر کیں۔ احسن اقبال نے بدعنوانیوں کے مبینہ کیسوں کے علاوہ اسلام آباد میں چار عشاریہ دو ارب ڈالر کی قیمت سے بننے والے فوجی ہیڈ کواٹر پر بھی سوال اٹھائے۔
سٹیل ملز کی نجکاری کے حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیا جس میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اس سودے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اسے رد کر دیا تھا۔ احسن اقبال نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز قوم کا ایک قیمتی اثاثہ ہے اور اس کی نجکاری میں بدعنوانی کی ذمہ داری کسی ادنی حکومتی اہلکار پر نہیں ڈالی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز کو ساڑھے بائیس ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا جبکہ اس میں دس ارب سے زیادہ کا خام مال موجود تھا۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ سٹیل ملز کے پاس خام مال کے علاوہ ساڑھے آٹھ ارب کا سرمایہ بھی موجود تھا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز کا کل رقبہ چودہ ہزار چار سو ستاون ایکڑ پر مشتمل تھا جس کی قیمت ڈیڑھ سو ارب روپے کے قریب بنتی ہے۔
اسلام آباد میں نئے فوجی ہیڈ کواٹر کی تعمیر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اتنی خطیر رقم سے ملک میں غربت دور کرنے یا تعلیم کو فروغ دینے کے لیئے اگر کوئی ٹرسٹ قائم کیا جاتا تو پانچ سالوں میں ان شعبوں میں انقلابی تبدیلی آسکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہیڈ کوارٹر کے لیئے مختص کی جانے والی اراضی میں سے ایک بڑا حصہ جرنیلوں کے بنگلوں، ان کی تفریح کے لیئےگولف کورس اور اس طرح کی دوسری سہولیات مہیا کرنے کے لیئے استعمال کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر یہ پیسہ ملک کی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیئے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔
احسن اقبال نے اپنی تقریر میں چینی، سیمنٹ اور سٹاک ایکسچینج کے کیسوں کا بھی ذکر کیا۔ اب تک حکومت پر لگائے جانے والے تمام الزامات کی حکومت بڑی سختی سے تردید کرتی رہی ہے۔

سٹیل ملز کو ساڑھے بائیس ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا جبکہ اس میں دس ارب سے زیادہ کا خام مال موجود تھا۔ سٹیل ملز کے پاس خام مال کے علاوہ ساڑھے آٹھ ارب کا سرمایہ بھی موجود تھا۔


احسن اقبال
پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نےکہا کہ ان کی پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ وہ کسی فوجی جنرل سے سودے بازی تو کیا بات تک نہیں کرےگی۔ انہوں نے کہا کہ’ہم اس فوج کی عزت کرتے ہیں جو قوم و ملک کا دفاع کرے لیکن ہم اس فوج کی ہرگز عزت نہیں کرسکتے جو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے‘۔
تحریک انصاف کے رہنما جاوید اقبال نے بھی فوج کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور انہوں نے کہا کہ فوج کے سربراہ نے کبھی اپنے آپ کو حکومت اور آئین کا تابع نہیں سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم کے دور میں جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس وقت سے اب تک کسی جنرل نے حکومتِ وقت کا حکم نہیں مانا۔
انہوں نے کہا کہ’جنرل ایوب نے پانچ دریاؤں کا سودا کر دیا تھا، جنرل یحیٰی نے آدھا ملک توڑ دیا، جنرل ضیاء نے سیاچین کھو دیا اور دین کا سودا کر دیا اور جنرل پرویز مشرف نے ایمان اور ملک کی خودمختاری کو بیچ ڈالا‘۔

Sunday, 04 March, 2007, 14:55 GMT 19:55 PST



پی آئی اے کا نوحہ






وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام




جب یکم فروری انیس سو پچپن کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی پہلی سمندر پار پرواز کراچی سے براستہ قاہرہ لندن روانہ ہوئی تو یوں لگا کہ سپر کانسٹیلیشن طیارے نے نہیں پاکستان کی قسمت نے ٹیک آف کیا ہے۔
پی آئی اے ایشیا کی پہلی کمپنی تھی جس نے جیٹ پروازیں شروع کیں۔ پہلی غیر کیمونسٹ ایئر لائن تھی جس نے عوامی جمہوریہ چین میں لینڈ کیا۔ پہلی فضائی کمپنی تھی جس نے براستہ ماسکو ایشیا اور یورپ کو ملایا،جس نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی پروازوں میں فضائی انٹرٹینمنٹ کا فلموں اور موسیقی کے ذریعے آغاز کیا۔ انیس سو سڑسٹھ میں جب ایک عام پاکستانی کو شاید پوری طرح اندازہ نہ ہو کہ کمپیوٹر کیا بلا ہے پی آئی اے پہلا قومی ادارہ تھا جس نے آئی بی ایم کمپیوٹر خریدا۔

پی آئی اے کا سیفٹی ریکارڈ اب بھی بیشتر ایئر لائنز کے مقابلے میں بہتر ہے۔ باون برس میں اڑتیس حادثے ہوئے ہیں لیکن سب سے برا دور سنہ دو ہزار سے اب تک کا ہے یعنی چھ برس میں چھ فضائی حادثے۔


یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی ایشیا کا دروازہ تھا۔ چالیس سے زائد فضائی کمپنیوں کے طیارے یہاں آتے تھے اور تازہ دم ہو کر آگے جاتے تھے۔ تیس کے لگ بھگ فضائی کمپنیاں اپنے عملے کو تربیت کے لیے کراچی بھیجتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پی آئی اے کی ایئرہوسٹس فرنچ ڈیزائنر پی ایغ کاغدیں کا بنایا ہوا یونیفارم پہنتی تھی اور مسکراتی بھی تھیں۔
پی آئی اے میزبانی، تکنیکی اور فضائی مسابقتی دوڑ پر مبنی وہ سپر ہٹ فلم تھی جسے ابوالحسن اصفہانی، ظفر الحسن، نور خان اور اصغر خان جیسوں نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ فیض احمد فیض نے یونہی نہیں’گریٹ پیپل ٹو فلائی ود‘ کا ترجمہ ’باکمال لوگ، لاجواب پرواز‘ کیا تھا۔
مگر یہ وہ کہانی ہے جو میں نے اپنے بڑوں سے سنی ہے۔ میرے دور کے پی آئی اے میں کوئی کیپٹن عبداللہ بیگ اور غیور بیگ نہیں ہے جنہوں نے پینتالیس برس پہلے بوئنگ سات سو بیس کو لندن سے کراچی چھ گھنٹے تینتالیس منٹ اور پچپن سیکنڈ میں پہنچا کر وہ عالمی ریکارڈ قائم کیا جو اب تک نہیں ٹوٹا۔
مجھے تو ایسی خبریں ملتی ہیں کہ اوسلو ایرپورٹ کے میڈیکل حکام نے ایک’کو پائلٹ‘ کو مقررہ حد سے زیادہ شراب نوشی کے جرم میں پرواز سے ذرا پہلے حراست میں لے کر چھ ماہ کے لیے اندر کر دیا یا برمنگھم سے پاکستان آنے والی پرواز اس لیے منسوخ کرنا پڑی کہ ایک پائلٹ پارٹی سے سیدھا ایئرپورٹ پہنچ گیا اور پھر اسے یاد آیا کہ وہ یونیفارم پہننا بھول گیا ہے۔
پی آئی اے کا سیفٹی ریکارڈ اب بھی بیشتر ایئرلائنز کے مقابلے میں بہتر ہے۔ باون برس میں اڑتیس حادثے ہوئے ہیں لیکن سب سے برا دور سنہ دو ہزار سے اب تک کا ہے یعنی چھ برس میں چھ فضائی حادثے۔
میرے بزرگ بتاتے ہیں کہ پی آئی اے کا شعبہ انجینئرنگ اتنا اچھا تھا کہ ایئر مالٹا، الیمنیہ اور صومالی ایئرلائن سمیت متعدد ایئر لائنز کی ٹیکنیکل منٹیننس پی آئی اے کرتی تھی لیکن اب یہ صورت ہے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب تکنیکی وجوہات کے سبب کوئی نہ کوئی پرواز منسوخ یا معطل نہ ہوتی ہو۔
تساہلی کا معیار یہ ہوگیا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے سال بھر پہلے سیفٹی کے بارے میں ملنے والی متعدد وارننگز کو اس طرح نظرانداز کیا گیا کہ اب پی آئی اے کے اسّی فیصد جہاز یورپ نہیں جاسکتے۔
یہ واقعہ ایک ایسے برس کے شروع میں پیش آیا ہے جسے حکومتِ پاکستان فروغِ سیاحت کا قومی سال کہتی ہے اور یہ مصیبت وہ ادارہ اپنے پر لایا ہے جو انیس سو ترانوے میں حکومت کی یکطرفہ اوپن سکائی پالیسی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں پہلے ہی ادھ موا ہوچکا ہے۔
وہ پی آئی اے جس کا ہاتھ ساڑھے تین دہائیوں تک اپنے تکنیکی، تجارتی اور سروس کے معیار اور کھلاڑیوں اور فنکاروں کی فراخدلانہ سرپرستی میں ہمیشہ اوپر رہا آج لنگڑی لولی حالت میں ریڑھے پر بٹھا کر نجکاری کے کمیلے کی طرف روانہ کیا جا رہا ہے اوراب بھی پی آئی اے کا نعرہ ہے’Come Fly With Us‘

منشور انقلاب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (2)قیوم نظامی
بدھ اگست 5, 2009
2۔ معاشی نظام:۔
1۔عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے دولت اور وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جائے گا تاکہ قومی دولت چند ہاتھوں میں جمع نہ ہو۔ آجر ، مزدور اور زمیندار و مزارع کے حقوق کو منصفانہ تحفظ فراہم کیا جائے گا۔2۔صدر، وزیر اعظم ، گورنر ، وزیر اعلیٰ ،وزیروں اور سرکاری اہل کاروں کے صوابدیدی اختیارات ختم کر دیئے جائیںگے تاکہ قومی دولت ذاتی مرضی اور منشاء کی بجائے عوام کے اجتماعی مفاد کیلئے صرف کی جائے۔
3۔کاروباری اور تجارتی اجارہ داریاں ختم کی جائیں گی۔ 4۔بے روز گار نوجوانوں کو گزارہ آلاؤنس دیا جائے گا۔
5۔بجلی ، پانی، گیس اور فون کے بلوں پر تمام ٹیکس ختم کر دیئے جائیں گے۔6۔25ایکڑ سے زیادہ زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔7۔براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کر کے بالواسطہ ٹیکسوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔8۔مقامی صنعتوں کو ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور ترقی یافتہ ممالک کے دباؤ اور استحصال سے باہر نکالا جائے گا۔9۔زراعت پر مبنی چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا تاکہ پھل اور سبزیاں برآمد کر کے زر مبادلہ کمایا جاسکے۔10۔معاف کئے گئے تمام قرضے واپس لیے جائیں گے۔11۔بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بیرونی ملکوں سے قرضے لینے کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا اور صرف غربت مٹانے کے پیداواری منصوبوں کیلئے قرضے لیے جائیں گے۔12۔پاکستانیوں کی بیرونی ممالک میں لوٹ مار اور کرپشن کے ذریعے حاصل کر کے جمع کرائی گئی قومی دولت واپس لانے کیلئے سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ملک کے اندر ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کا حساب لیا جائے گا اور کرپشن کے ذریعے ہتھیائی گئی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ضبط کر لی جائے گی اور لوٹ مار کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔
3۔ گڈ گورننس (اچھی حکومت):۔
1۔عوام کو اچھی حکومت فراہم کرنے کیلئے انقلابی انتظامی تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ایسا نظام وضع کیا جائے گا کہ عوام کو اپنے مسائل کیلئے سرکاری دفتروں کے چکر نہ لگانے پڑیں۔
2۔سادگی ،کفایت ،شعاری اور خود انحصاری کے سنہری اصولوں پر عمل کیا جائے گا۔وی آئی پی کلچر، سرکاری مراعات اور پلاٹ کلچر کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ 3۔حکومتی اور سرکاری اہل کاروں کو پاکستان میں تیار ہونے والی کار یں فراہم کی جائیں گی۔کسی سرکاری اور حکومتی اہلکار کے پاس ایک سے زیادہ کار نہیں ہو گی۔صدر ،وزیر اعظم ، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ کوئی حکومتی اور سرکاری اہلکار پاکستانی پرچم گاڑی پر نہیں لہرا سکے گا۔4۔گریڈ 1 سے گریڈ 22 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں فرق کو کم کیا جائے گا۔
5۔گورنر ہاؤس ایوان صدر ،وزیر اعظم ہاؤس اور سرکاری و حکومتی اہلکاروں کے بڑے گھر خالی کرا لیے جائیں گے ۔ جنہیں عوامی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ حکومتی اور سرکاری عہدے دار ملک کی معاشی حالت اور سرکاری ضرورت کے مطابق دفاتر اور گھر استعمال کر سکیں گے۔6۔یونین کونسل، تحصیل ،ضلع اور شہر کی سطح پر عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے مقامی حکومتیں چلائیں گے۔7۔سرکاری اہلکاروں کو عوام کا خادم بنانے کیلئے قوانین بنائے جائیں گے۔سول اور ملٹری بیورو کریسی کو انسانی حقوق کی تعلیم دی جائے گی۔اراکین پارلیمنٹ اعلیٰ فوجی اور سویلین آفیسر اور اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنی جائیدادکے سالانہ گوشوارے داخل کرائیں گے 8۔احتساب کا صاف شفاف اور مستقل نظام وضع کیا جائے گا۔احتساب کمیشن آزاد اور خود مختار ہو گا جسے آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔ جو حکومتی اہل کاروں کا احتساب کریگا۔ تاکہ حکومت کڑے احتساب کی نگرانی میں کام کرے اور اس طرح معاشرے سے کرپشن کے ناسور کو ختم کیا جاسکے۔احتساب سیاسی انتقام اور سیاسی مصلحتوں سے پاک ہو گا۔9۔دوہری شہریت رکھنے والے افراد حکومتی اور سرکاری منصب پر فائز نہیں کئے جائیں گے اور نہ ہی وہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو ں گے۔10۔عوام کو قومی سلامتی کے خفیہ امور کے علاوہ تمام سرکاری فائلوں کے ریکارڈ کی نقل حاصل کرنے کا حق دیا جائے گا۔11۔مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے فرائض سر انجام دیں گے۔12۔وفاقی اور صوبائی سروس کمیشن خودمختار ہوں گے اور میرٹ کی بنیاد پر سرکاری ملازمین تعینات کریں گے۔13۔سکیورٹی کے ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے ہوں گے۔حکومتی اور سرکاری شخصیات کو غیر ضروری سکیورٹی فراہم نہیں کی جائے گی۔14۔حکومتی اور سرکاری عہدیداروں کے بیرونی دوروں کی منظوری سینٹ کی خارجہ کمیٹی دے گی۔جس میں حکومت کے خارجہ سیکرٹری شامل ہوں گے۔15۔ Conflict of Interest یعنی قومی اور ذاتی مفاد کے ٹکراؤ کو ختم کرنے کیلئے قوانین بنائے جائیں گے۔ حکومتی اور سرکاری عہدوں پر فائز افراد ذاتی کارو بار نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی منفعت بخش پیشہ وارانہ فرائض ادا کر سکیں گے۔
4۔ دفاع:۔
پاک فوج کے سائز کو قومی و دفاعی ضرورت کے مطابق کم کیا جائے گا تاکہ معیشت کو دفاعی بوجھ سے باہر نکالا جا سکے۔ دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں بحث کیلئے پیش کیا جائے گا۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ آرمی چیف کے اختیارات کوسویلین حکومت کے مکمل کنٹرول میں لایا جائے گا۔ سینئر موسٹ لیفٹیننٹ جنرل کو آرمی چیف بنایا جائے گا۔آرمی چیف کی تین سالہ مدت ملازمت میں کسی صورت اضافہ نہیں کیا جائے گا۔فوج ، بحریہ اور فضائیہ سویلین حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہوں گے۔ کور کمانڈرز حاکم نہیں خادم ہوں گے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے)

Followers

Video Post