Corruption Stories

Posted by Muhammad Musa Soomro Monday, August 10, 2009

Tuesday, 04 December, 2007, 17:49 GMT 22:49 PST

ڈی آئی جی پولیس گرفتار


نیب لوگو

ڈی آئی جی پولیس کو بدھ کی صبح عدالت میں پیش کیا جائیگا

پاکستان میں بدعنوانی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے قومی احتساب بیورو نے ڈی آئی جی پولیس الطاف حسین صدیقی کو گرفتار کرلیا ہے۔

سندھ کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل آف پولیس الطاف حسین صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور غیر قانونی طریقے سے املاک بنائیں ۔

قومی احستاب بیورو کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے ٹھٹہ میں پانچ سو ایکڑ سے زائد سرکاری زمین جعلی ناموں سے الاٹ کرا کے اپنے خاندان کے نام کروائی۔

احستاب عدالت کراچی میں ان کے خلاف ریفرنس زیر سماعت ہے اور عدالت نے ان کی گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے۔ انہیں بدھ کی صبح عدالت میں پیش کیا جائیگا۔

ڈی آئی جی الطاف حسین سندھ کے کئی اضلاع میں تعینات رہے اور آجلکل پوسٹنگ کے انتظار میں تھے۔


Wednesday, 26 July, 2006, 16:49 GMT 21:49 PST

میگا کرپشن آف مشرف گورنمنٹ


کرپشن سیمینار

سیمینار میں اہم اپوزیشن رہنماؤں نے شرکت کی

حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) نے موجودہ حکومت کے سات سالہ دور کے دوران ہونے والے مبینہ بدعنوانی کے کیسوں پر بدھ کو اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد کیا۔

میگا کرپشن آف مشرف گورنمنٹ‘ کے عنوان سے ہونے والے اس سیمینار میں مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے ایک درجن سے زیادہ ایسے کیسوں کے بارے میں سیمینار کے شرکاء کو آگاہ کیا جن میں ان کے مطابق اربوں روپے کے گھپلے ہوئے ہیں۔

اس سیمینار میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ایڈمرل ریٹائرڈ جاوید اقبال، مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق اور مسلم لیگ(ن) خواتین ونگ کی صدر عشرت اشرف نے بھی شرکت کی۔

سیمینار میں احسن اقبال نے مبینہ کرپشن کے کیسوں کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا جبکہ دیگر رہنماؤں نے سیاسی تقاریر کیں۔ احسن اقبال نے بدعنوانیوں کے مبینہ کیسوں کے علاوہ اسلام آباد میں چار عشاریہ دو ارب ڈالر کی قیمت سے بننے والے فوجی ہیڈ کواٹر پر بھی سوال اٹھائے۔

سٹیل ملز کی نجکاری کے حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیا جس میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اس سودے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اسے رد کر دیا تھا۔ احسن اقبال نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز قوم کا ایک قیمتی اثاثہ ہے اور اس کی نجکاری میں بدعنوانی کی ذمہ داری کسی ادنی حکومتی اہلکار پر نہیں ڈالی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز کو ساڑھے بائیس ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا جبکہ اس میں دس ارب سے زیادہ کا خام مال موجود تھا۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ سٹیل ملز کے پاس خام مال کے علاوہ ساڑھے آٹھ ارب کا سرمایہ بھی موجود تھا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سٹیل ملز کا کل رقبہ چودہ ہزار چار سو ستاون ایکڑ پر مشتمل تھا جس کی قیمت ڈیڑھ سو ارب روپے کے قریب بنتی ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے:احسن اقبال

اسلام آباد میں نئے فوجی ہیڈ کواٹر کی تعمیر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اتنی خطیر رقم سے ملک میں غربت دور کرنے یا تعلیم کو فروغ دینے کے لیئے اگر کوئی ٹرسٹ قائم کیا جاتا تو پانچ سالوں میں ان شعبوں میں انقلابی تبدیلی آسکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہیڈ کوارٹر کے لیئے مختص کی جانے والی اراضی میں سے ایک بڑا حصہ جرنیلوں کے بنگلوں، ان کی تفریح کے لیئےگولف کورس اور اس طرح کی دوسری سہولیات مہیا کرنے کے لیئے استعمال کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر یہ پیسہ ملک کی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیئے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔

احسن اقبال نے اپنی تقریر میں چینی، سیمنٹ اور سٹاک ایکسچینج کے کیسوں کا بھی ذکر کیا۔ اب تک حکومت پر لگائے جانے والے تمام الزامات کی حکومت بڑی سختی سے تردید کرتی رہی ہے۔

سٹیل ملز کو ساڑھے بائیس ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا جبکہ اس میں دس ارب سے زیادہ کا خام مال موجود تھا۔ سٹیل ملز کے پاس خام مال کے علاوہ ساڑھے آٹھ ارب کا سرمایہ بھی موجود تھا۔

احسن اقبال

پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نےکہا کہ ان کی پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ وہ کسی فوجی جنرل سے سودے بازی تو کیا بات تک نہیں کرےگی۔ انہوں نے کہا کہ’ہم اس فوج کی عزت کرتے ہیں جو قوم و ملک کا دفاع کرے لیکن ہم اس فوج کی ہرگز عزت نہیں کرسکتے جو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے‘۔

تحریک انصاف کے رہنما جاوید اقبال نے بھی فوج کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور انہوں نے کہا کہ فوج کے سربراہ نے کبھی اپنے آپ کو حکومت اور آئین کا تابع نہیں سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم کے دور میں جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس وقت سے اب تک کسی جنرل نے حکومتِ وقت کا حکم نہیں مانا۔

انہوں نے کہا کہ’جنرل ایوب نے پانچ دریاؤں کا سودا کر دیا تھا، جنرل یحیٰی نے آدھا ملک توڑ دیا، جنرل ضیاء نے سیاچین کھو دیا اور دین کا سودا کر دیا اور جنرل پرویز مشرف نے ایمان اور ملک کی خودمختاری کو بیچ ڈالا‘۔


Wednesday, 26 September, 2007, 15:08 GMT 20:08 PST

پاکستان بیالیسواں کرپٹ ملک: رپورٹ


دنیا کے مختلف ممالک میں کرپشن کی سطح کو جانچنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو کرپٹ ترین ممالک میں بیالیسوے نمبر پر جگہ دی ہے۔

ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وہاں کرپشن میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے تاہم پولیس اور تعلیم کے محکموں میں بےانتہا کرپشن ہے۔

کراچی میں بدھ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان کے چیئرمین سید عادل جیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی صورتحال کے حوالے سے معمولی بہتری تو ضرور آئی ہے تاہم کرپشن میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم کرپشن کے حوالے سے مختلف ممالک کو صفر سے دس نمبر دیتی ہے اور یہی اس ملک میں کرپشن جانچنے کا پیمانہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میانمار یعنی برما اور صومالیہ ایک اعشاریہ چار نمبر لے کر دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ ممالک ہیں جبکہ ڈنمارک کے پوائنٹ نو اعشاریہ چار ہیں اور وہاں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔

کرپشن میں کمی

کرپشن میں کمی کے بارے میں وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محکمۂ انکم ٹیکس، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں کمپیوٹر کا بڑے پیمانے پر استعمال کرنے سے ان محکموں میں کرپشن کی سطح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان نے دو اعشاریہ چار پوائنٹ لیے ہیں جبکہ پچھلے سال اس کے دو اعشاریہ دو پوائنٹ تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کرپشن کی سطح میں معمولی کمی آئی ہے۔

کرپشن میں کمی کے بارے میں وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محکمۂ انکم ٹیکس، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں کمپیوٹر کا بڑے پیمانے پر استعمال کرنے سے ان محکموں میں کرپشن کی سطح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

دوسری جانب ان کے بقول پولیس، لینڈ ریوینیو اور تعلیم کے محکموں میں کرپشن اس وقت بھی بے انتہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کے ذمہ دار عوام ہیں، اگر وہ رشوت نہ دیں تو کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قوانین کو سمجھوتوں کی نذر کردیا جاتا ہے، مثال کے طور پر مختلف پراجیکٹ کے ٹھیکے دینے کے لئے من پسند افراد کو دیکھا جاتا ہے اور اس سلسلے میں قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو یہ حال نہ ہوتا۔ سمجھوتوں کی بنیاد پر سن انیس سو اٹھاسی کے کرپشن کے مقدمات اب تک التواء کا شکار ہیں۔ عدلیہ پر ہمیشہ دباؤ آتے رہیں گے لیکن ان کو چاہیے کہ وہ اپنی صوابدید پر فیصلہ کریں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈکٹیٹر شپ میں کرپشن پروان چڑھتی ہے اور ان کی تنظیم جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ موجودہ حکومت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’جمہوری حکومت میں وزیرِاعظم ملک کا سربراہ ہوتا ہے لیکن اس حکومت میں وزیرِاعظم صرف کاغذوں پر سربراہ ہے۔


Friday, 05 October, 2007, 01:30 GMT 06:30 PST

مصالحتی آرڈیننس، سب کے مزے


نیب لوگو

احتساب بیورو مخصوص مقاصد کے تحت کارروائی کرنے کے الزامات سے اپنا دامن نہیں بچا سکا

حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان قومی مصالحتی فارمولے کے تحت مجوزہ آرڈیننس سے جہاں سیاستدانوں کو فائدہ پہنچے گا وہاں اُن کاروباری حضرات، سرکاری افسروں اور فوج کے سابق ملازمین کو بھی فائدہ ہوگا جن کے خلاف قومی احتساب بیورو نے مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔

احتساب بیورو کی ویب سائیٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق بیورو کے قیام سے لے کر رواں سال تیس جون تک گیارہ سو نوے مقدمات عدالتوں میں بھجوائے گئے۔ جن میں سے چھ سو تراسی مقدمات میں عدالتوں نے فیصلے سنائے۔

چار سو پینسٹھ مقدمات میں عدالتوں نے نامزد ملزمان کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائیں جبکہ ایک سو چھبیس مقدمات کے ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

احتساب بیورو نے بانوے مقدمات خود واپس لے لیے اور پانچ سو دو مقدمات اب بھی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

قومی احتساب بیورو کے مطابق تیس جون سن دو ہزار سات تک ایک سو سولہ ارب ساٹھ کروڑ روپے ڈیفالٹ قرضوں کے مد میں وصول کیے گئے جبکہ ساٹھ ارب روپے کے قرضہ جات ری شیڈول اور ری سٹرکچر کیے گئے۔

پنہاں ہے سب کا مفاد

بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی شراکت اقتدار کی خواہش کی وجہ سے قومی مصالحت کے قانون سے جہاں حزب مخالف کے سیاستدانوں اور ان کے حامیوں کو فائدہ ہوگا وہاں حکومت میں شامل متعدد اعلیٰٰ شخصیات بھی فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں

احتساب بیورو نے برس ہا برس سے لوٹے گئے کھربوں روپوں میں سے رواں سال تیس جون تک محض چوبیس ارب روپے وصول کیے۔ جبکہ ساڑھے گیارہ ارب روپے انہیں عدالتوں کی جانب سے عائد کردہ جرمانوں کے مد میں وصول ہوئے۔

احتساب بیورو نے سات برسوں میں سب سے زیادہ مقدمات سویلین محکموں کے سرکاری ملازمین اور سب سے کم فوجیوں کے خلاف قائم کیے۔

صدر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بلا تفریق بے رحم احتساب کا اعلان کیا تھا، لیکن بعد میں احتساب بیورو مخصوص افراد کے خلاف کارروائی کے الزامات سے اپنا دامن نہیں بچا سکا۔

ان الزامات میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب اکتوبر سنہ دو ہزار دو کے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے کھلم کھلا ریاستی ادارے میدان میں کود پڑے اور بڑے پیمانے پر ’ہارس ٹریڈنگ‘ کی گئی۔

اُس وقت نوزائیدہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کو اقتدار میں لانے کے لیے لالچ اور خوف کے ہتھیار بڑی بے رحمی سے استعمال کیےگئے اور اس میں جہاں سول ادارے ملوث تھے وہاں بعض فوجی اداروں پر بھی انگلیاں اٹھیں۔

چھوٹے کی جان سوئس کورٹس سے

بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں چلنے والے مقدمات کا خاتمہ ان کے لیے باعث سکون ہوگا

حکومت سازی کے چکر میں احتساب بیورو کی جانب سے آفتاب احمد شیر پاؤ، فیصل صالح حیات، لیاقت علی جتوئی اور سپیکر قومی اسمبلی چودھری امیر حسین سمیت متعدد اہم شخصیات کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات اور الزامات کے تحت درج مقدمات اور تحقیقات پر کام روک دیا گیا۔

بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی شراکت اقتدار کی خواہش کی وجہ سے قومی مصالحت کے قانون سے جہاں حزب مخالف کے سیاستدانوں اور ان کے حامیوں کو فائدہ ہوگا وہاں حکومت میں شامل متعدد اعلیٰٰ شخصیات بھی فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں۔

اس قانون سے جہاں پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری، ایف آئی اے کے سابق افسر اور آجکل بینظیر بھٹو کے معتمد خاص رحمٰن ملک، بیوروکریٹس سلمان فاروقی اور عثمان فاروقی، ٹیکنوکریٹ حسین حقانی اور دیگر کو فائدہ پہنچے گا وہاں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے بعض دیگر افراد، سید غوث علی شاہ اور سیف الرحمٰن بھی مستفید ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

البتہ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں چلنے والے مقدمات کا خاتمہ ان کے لیے باعث سکون ہوگا۔ ان مقدمات کے حوالے سے حکومت اور بینظیر بھٹو کو پیشیاں بھگتنے اور وکلاء کی فیس کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑے ہیں۔

آئین سے متصادم مصالحت

اعتزاز احسن مقدمات کے خاتمے کے قانون کو آئین کی شق پچیس کے منافی قرار دے رہے ہیں، جس کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں


مصالحتی آرڈیننس کے بارے میں بینظیر بھٹو کا دعویٰ ہے کہ اس کا زیادہ فائدہ موجودہ حکومت میں شامل افراد کو ہوگا۔ ان کے بقول نیب زدہ وزیروں، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے توڑے گئے اسی اراکان اسمبلی کے علاوہ نیب کے وہ افسران بھی بچ جائیں گے جنہوں نے بے بنیاد مقدمات تیار کیے۔

ان کے اس دعوے کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر نیب کے بانی چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد امجد، پنجاب کے موجودہ گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد مقبول اور ان کے موجودہ پرنسپل سیکرٹری حسن وسیم افضل سمیت احستاب بیورو کے کئی افسران بھی جان کی امان پائیں گے۔

تاہم پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماء اور سینئر وکیل اعتزاز احسن مقدمات کے خاتمے کے قانون کو آئین کی شق پچیس کے منافی قرار دے رہے ہیں، جس کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔


Friday, 20 April, 2007, 14:37 GMT 19:37 PST

مشرف حکومت کی لوٹ سیل


اکانوے صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں کئی مبینہ سکینڈلز کی تفصیل ہے

پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے جمعہ کو ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس کا موضوع مشرف حکومت کی مبینہ بدعنوانی یا ’میگا کرپشنہے۔

احسن اقبال نے اسلام آباد میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ گزشتہ سات سالوں کے دوران مشرف حکومت جو دعوی کرتی رہی ہے کہ وہ پاکستان کی سب سے کامیاب حکومت ہے، پاکستان کی تاریخ کی بد ترین کرپشن کی مرتکب ہوئی ہے۔

مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری اطلاعات نے مشرف حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے ایک کرپشن سیکنڈل ’سٹیل ملز‘ کا از خود نوٹس لیا تو مشرف حکومت نے عدلیہ کو بھی نہیں چھوڑا اور اسی وجہ سے اب ملک ایک عدالتی بحران کا شکار ہے۔

نواز لیگ کی جانب سے جاری کیے گئے اکانوے صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں سٹیل ملز، حبیب بینک، پی ٹی سی ایل، لینڈ مافیا، ریلوے انجنوں، سٹاک ایکسچینج، قیدیوں کے تبادے کے معاہدے، چینی کا بحران، پاک امریکن فرٹیلائزر، اور خفیہ ایجنسیوں کے کردار جیسے سکینڈلز کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے

کتابچے میں حکومت پر عدلیہ اور آئینی اداروں کو تباہ کرنے اور میڈیا پر حلموں جیسے الزامات بھی لگائے گئے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس وقت مشرف حکومت کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کو تحریری طور پر اس لیے منظر عام پر لایا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کے عوام اور دانش ور طبقے کو پاکستان کے کلیدی اداروں میں ہونے والی کرپشن کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

پریس کانفرنس میں ملک میں موجود بجلی کے بحران پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں دو ہزار میگا واٹ بجلی کی کمی ہے جو موسم گرما کے شدید ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ اور یہ ایسان بحران ہے جس سے عام آدمی سے لے کر ملک کی انڈسٹری سب متاثر ہو رہے ہیں۔

حکومت پاکستان کی جانب سے وزیر مملکت برائے اطلاعات طارق عظیم نے ان الزامات کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ طارق عظیم کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن صدر مشرف اور وزیراعظم پر آج تک کرپشن کا ایک بھی الزام ثابت نہیں کر سکی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن کا سال ہے اور پاکستان کے باشعور عوام جانتے ہیں کے بدعنوانی کے الزامات اپوزیشن کے بیمار ذہن کی اختراع ہیں۔


Thursday, 18 January, 2007, 22:02 GMT 03:02 PST

زلزلے کی رقوم کی تفصیلات طلب


ماضی میں تعمیراتی فنڈز کی تقسیم میں کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں

پبلک اکونٹس کیمٹی نے زلزے سے متعلق تعمیر نو اور بحالی کے ادارے ایرا سے کہا ہے کہ وہ زلزہ زدہ علاقوں میں تقسیم کی گئی رقوم کے بارے میں تفصیلات فراہم کرے۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکونٹس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اقتصادی امور ڈویژن کے سیکریڑی اکرم ملک نے اجلاس کو بتایا کہ زلزے سے متعلق تعمیر نو اور بحالی کا ادارہ اب تک زلزے سے متاثرہ علاقوں میں ایک ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔

رکن کمیٹی سید قربان علی شاہ نے کہا کہ یہ رقم کہاں تقسیم کی گئی ہے کیوں کہ ان کے کہنے کے مطابق اٹھارہ لاکھ متاثرین اب بھی ان علاقوں میں کھلے آسمان تلے بے سرو سامانی میں رہتے ہیں۔

اکرم ملک نے اجلاس کو بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تفصیلات نہیں ہے اس لئے بہتر ہے کہ ایرا سے اس باری میں تفصیلات لی جائیں تا کہ صحیح صورت حال سے آگاہی ہوسکے۔

پبلک اکونٹس کمیٹی نے ایرا کے چیئرمین کو ہدایت کی وہ تقسیم شدہ رقم کی تفصیلات فراہم کرے اور اس غرض کے لئے امکان ہے کہ پبلک اکونٹس کمیٹی کا اگلے ماہ ایک خصوصی اجلاس طلب کیا جائے گا۔

قربانی علی شاہ نے کہا کہ بعض ممالک نے وعدے کے مطابق رقم نہیں دی کیوں کہ حکومت نے تعمیر نو کے کاموں میں سول اداروں کو شامل نہیں کیا اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔


Tuesday, 03 October, 2006, 14:22 GMT 19:22 PST

زلزلے کی کچھ امداد شدت پسندوں تک؟


اقوام متحدہ نے امداد متاثرہ علاقوں کے ریلیف کیمپس تک پہنچائی جن میں سے کچھ الرشید ٹرسٹ کے تھے

بی بی سی کی ایک تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ اکتوبر 2005 میں پاکستان میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کے لیئے اقوام متحدہ کی جانب سے دی جانے والی کچھ امداد، امدادی اداروں کے ذریعے شدت پسند جہادی گروپوں تک بھی پہنچی ہے۔

زلزلے میں 79000 افراد ہلاک جبکہ 11000 بچے یتیم ہوگئے تھے جبکہ تقریباً بیس لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ امدادی تنظیموں میں سے ایک، جس کا تعلق شدت پسندوں سے ہے، اب یتیم ہونے والوں بچوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

پاکستان میں تباہ کن زلزلے کے بعد کے دنوں میں حکومتِ پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ ایسے بے سہارا ہونے والوں تمام بچوں کی نگرانی حکومت خود کرے گی۔

اکتوبر کے زلزلے سے جس پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بے گھر ہونے والوں کی بڑی تعداد دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہوگئی۔ بے شمار ملکی و غیر ملکی، سرکاری و غیر سرکاری امدادی ادارے متاثرین کی امداد کے لیئے حرکت میں آگئے۔

اس موقع پرشدت پسندوں سے منسلک کئی امدادی تنظیمیں بھی سرگرم ہوگئیں۔
انہیں میں سے ایک الرشید ٹرسٹ ہے جس پر اقوام متحدہ کی جانب سے پابندی عائد تھی۔ اس تنظیم پر القاعدہ کا ساتھ دینے کا الزام تھا۔

حکومت کارروائی کرے گی

حکومت جماعت الدعوٰہ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ اس پر اقوام متحدہ نے پابندی نہیں لگائی ہے تاہم اگر یہ ادارے امداد سے آگے کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے تو حکومت ان کے خلاف کرروائی کرے گی۔

آفتاب شیر پاؤ


تاہم اقوام متحدہ نے امداد متاثرہ علاقوں کے ریلیف کیمپس تک پہنچائی جن میں سے کچھ الرشید ٹرسٹ کے تھے۔

اقوام متحدہ کے اداروں نے جماعت الدعوۃ کے ساتھ مل کر بھی کام کیا ہے۔ یہ تنظیم بھی امریکی دعوے کے مطابق کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے منسلک ہے۔ تاہم تنظیم اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

جماعت الدعوۃ کے شائع کیئے جانے والے لٹریچر میں جہاد کی تعریفیں اور غیر مسلموں کے خلاف حملوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے رابطہ کار ژاں وینڈے مورٹیل کا کہنا ہے انہوں نے ان تنظیموں کے ساتھ مل کر کام نہیں کیا بلکہ ان کیمپوں تک امداد پہنچائی ہے جو ان تنظیموں کے تھے۔ ’ہمارا ان کے ساتھ براہ راست رابطہ نہیں تھا‘۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت صورتحال موت و زندگی کے درمیان کشمکش کی تھی لیکن ان علاقوں میں اس آفت سے پہلے جماعت الدعوۃ اور الرشید ٹرسٹ زیادہ سرگرم نہیں تھیں۔ تاہم امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر کام لینے سے علاقے میں ان کی پوزیشن کافی مستحکم ہوگئی ہے۔

جماعت الدعوۃ کے ایک رہنما نے بتایا کہ لوگ ان پر اعتبار کررہے ہیں اور کئی یتیم بچوں کو ان کے زیر نگرانی بھی دے دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے تقریباً 400 بچے اب ان کے مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔

مغربی ممالک مدارس کو زیادہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے


مغربی ممالک مدارس کو زیادہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ تاہم ملک کے بیشتر مدارس متنازعہ نہیں ہیں۔ جماعت الدعوۃ کے ایک رہنما کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کے مدارس میں صرف دینی تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ دیگر مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔

لیکن مانسہرہ کے ایک مدرسہ میں صبح بچے جو ترانہ پڑھ رہے تھے وہ کئی کے لیئے باعث فکر ہے۔ ترانے کے الفاظ کچھ یوں تھے ’جب لوگ ہمارے دین کو جھٹلائیں تو انہیں اسلام کی دعوت دو اور اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو انہیں تباہ کردو‘۔

تاہم جماعت الدعوۃ کے ترجمان نے تردید کی کہ بچوں کو ایسے کسی کام کی ترغیب دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امدادی کاموں کے سلسلے میں یہاں بہت سے غیر مسلم آئے، کسی پر بھی اعتراض نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم عسکریت پسند نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لشکر طیبہ سے تعلقات ہیں۔

تاہم ایک امریکی ماہر لیرح رابنسن کا کہنا ہے کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد شدت پسندوں کو فنڈز فراہم کرنے والی تنظیموں میں الرشید ٹرسٹ بھی شامل تھا۔ اس پر سرکاری پابندی کے باوجود بھی یہ سرگرم رہی اور اب یہ پاکستان کے بڑے امدادی اداروں میں سے ایک ہے۔

امدادی کاموں کے سلسلے میں یہاں بہت سے غیر مسلم آئے، کسی پر بھی اعتراض نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم عسکریت پسند نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لشکر طیبہ سے تعلقات ہیں۔

جماعت الدعوۃ


زلزلے کے بعد حکومت پاکستان نے الرشید ٹرسٹ اور جماعت الدعوۃ کے کاموں کی تعریف کی تھی۔

وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کا کہنا ہے کہ حکومت جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ اس پر اقوام متحدہ نے پابندی نہیں لگائی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ ادارے امداد سے آگے کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کریں گے تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔

0 comments

Post a Comment

Followers

Video Post