Posted by Muhammad Musa Soomro Monday, August 24, 2009

کرپشن

ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی تازہ سروے رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں 179ممالک کے سروے کئے گئے گذشتہ تقریباً10سال سے دیکھ رہا ہوں کہ ڈنمارک، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، سنگاپور، سویڈن، آئس لینڈ، نیدر لینڈ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، ناروے مسلسل ہر سال کبھی کوئی پہلا نمبر حاصل کر لیتا ہے اور کوئی بھی ملک دوسے، تیسرے یا دسویں نمبر پر آجاتا ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ کہا وجہ ہے کہ ؟ ان ممالک میں کرپش یا مکر و فریب جگہ نہیں بنا پاتا؟ کیا وجہ ہے کہ گذشتہ 10برسوں سے یہ ممالک کرپن سے پاک ٹاپ 10ممالک ہیں قارئین کرام اس کی گواہی دینے میں مجھے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کیونکہ 1984میں 15ماہ ڈنمارک میں بسر کئے اور 16سال سے امریکا میں مقیم ہوں یہ حقیقت ہے کہ ڈنمارک کی معیار زندگی امریکا کے مقابلے میں کئی درجہ بہتر ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں جمہوریت کی جڑیں مظبوط ہیں غربت کا جھونکا کبھی ان ممالک کے قریب سے نہیں گذرا ان ممالک میں جو مسائل عام لوگوں کی زندگی میں آتے ہیں اسے آسانی سے انگلی پر گن سکتے ہین یہ مسائل بھی زیادہ وسائل کی وجہ سے ان خود ساختہ بنائے ہوئے ہیں بے روز گاری کس چیز کا نام ہے؟ اصل میں ہر معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خود کام کرنا نہیں چاہتے ان ممالک میں ایسے بے کار لوگوں کو حکومت ہر ماہ بے روزگاری الاؤنس کے نام پر اچھی خاصی رقم ادا کرتی ہے جو یہ زیادہ تر نشے اور دوسرے غیر ضروری مشاغل میں اڑا دیتے ہیں میڈیکل انشورنس 100%ان ممالک میں حکومت کی جانب سے ہوتی ہے مختصر یہ کہ دنیا میں یہ ممالک دنیا کی جنت ہیں۔ 
ان آئیں ایک نظر امریکا پر ڈالتے ہیں اگر مذکورہ 10ممالک سے امریکا کا موازنہ کیا جائے تو واضح فرق نظر آئیگا اس وقت امریکا میں تقریباً 44ملین امریکن شہری میڈیکل انشورنس سے محروم ہیں امریکا میں بے روزگاری الاؤنس صرف6ماہ تک دیا جاتا ہے یہ قانون سابق صر بل کلنٹن نے بنایا تھا امریکا دنیا میں واحد سپر پاور ہے مگر اس میں میں مسائل کی بھر مار بش انتظامیہ کے دور میں سامنے آئی 9/11نے امریکا کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا کہ انغانستان اور عراق کی جنگوں کے علاوہ عالمی سطح پر دھشت گردی کے خلاف جنگ نے کیا امریکا کا شمار 179ممالک مٰں کرپشن کے نقطہ نظر سے 20ویں نمبر پر ہے جبکہ برطانیہ 12ویں نمبر پر اور اسرائیل 30ویں نمبر پر ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ انڈیا 72نمبر پر ہے اس سروے کو دیکھنے کے بعد دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ آخر پاکستان کا شمار گذشتہ 10سال سے ہیٹی۔منیامار، سوڈان، کانغو ڈیموکریٹک ریپبلک، عراق، کمبوڈیا، بنگلہ دیش، انگولا، اور گمبیا کے ساتھ کیوں کیا جاتا ہے؟ پاکستان ایٹمی طاقت ہے دھشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے شانہ بشانہ ہے پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان 179مملاک میں 138نمبر پر کرپٹ ملک ہے آخر اسکا ذمہ دار کون ہے؟ کہا حکومت جو حقیقی جمہوریت قائم ہونے نہیں دیتی؟ کیا اسکی یہ وجہ تو نہیں کہ کرپٹ سیاستدانوں کو معاف کر دیا جاتا ہے؟ کیا یہ وجہ تو نہیں ہے کہ پاکستان میں حکمران، مشیر اور اعلیٰ عہدیدار لش پش اسٹائل سے رہتے ہیں بلٹ پروف کاریں رکھتے ہیں؟ جبکہ انکی ناک کے نیچے 40فیصد کے قریب لوگ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ 
لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں، مہنگائی کے بوجھ نے لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، صفائی نہ ہونے کے باعث ڈنگی جیسے خطرناک وائرس معصوم لوگوں کو زندہ رہنے نہیں دے رہے مگر ان بنیادوں پر پاکستان کو دنیا کے انتہائی پسماندہ ممالک میں لا کھڑا کر کے انہتائی کرپٹ ملک قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ سراسر امتیازی سلوک ہے پاکستان کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ امریکا جس نے اقوام متحدہ کے قوانین کو پارہ پارہ کر کے عراق پر حملہ کی جس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں عراقی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لاکھوں اپاہج ہو گئے امریکی فوج کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نے کہا کہ عراق جنگ امریکا کے لئے ڈرائنا خواب ہے جس کا اختتام بظاہر ہوتے نظر نہیں آرہا انھوں نے کہا کہ عراق پر حملے کا فیصلہ کرنے والی امریکی قیادت نااہل، طاقت کے نشے میں چور ہے انھوں نے کہا کہ امریکن حکومت طاقت کا ناجائز مظاہرہ کر رہی ہے امریکی انتظامیہ کانگریس بالخصوص دفتر خارجہ، خفیہ اداروں کو عراق جنگ کی موجودہ صورتحال میں جو ہر زاویے سے ناکامی کی جانب جا رہی ہے اپنی اپنی ذمہ داری قبول کرنا چاہئے اور امریکی عوام کو ان تمام اداروں کا احتساب کرنا چاہئے اس سے پہلے کولن پاول جیسی شخصیت نے امریکن پالیسی پر نکتہ چینی کر کے استعفیٰ دے دیا تھا ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا گیا جس کی وجہ سے سابق وزیر دفاع رمسفیلڈ کو رخصت لینی پڑی بش انتظامیہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں نے بش انتظامیہ کو اسلئے چھوڑ دیا کہ عراق پر حملے اور سابق صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے کا منصوبہ آغاز سے ہیں خامیوں سے بھر پور تھا بش انتظامیہ عراق میں پرائیویٹ سیکیورٹی کے ہاتھوں سینکڑوں معصوم نہتے عراقیوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کر رہی ہے مگر ابھی تک کسی کو سزا نہیں دی گئی دراقی حکومت نے ان پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیوں کو عراق چھوڑنے کے احکامات جاری کئے ہیں مگر وہ چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ 
امریکا نے جب افغانستان پر چڑھائی کی تھی اس وقت بھی درجنوں سکول، مساجد اور شہری ٹھکانوں پر گولہ باری کی گئی تھی جس کے نتیجے میں سینکڑوں، ہزاروں معصوم شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ان تمام صورتحال کے بعد بھی ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل نے امریکا کو 20ویں نمبر پر لاکر کرپٹ ملک کی لسٹ سے باہر نکال دیا۔ اب آیئے اسرائیل پر نظر ڈالتے ہیں جو ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی نظر میں کرپٹ ملک نہیں ہے اسرئیل نے 1948سے اب تک اقوام متحدہ کی 144قراردادوں کو پاؤں تلے روند ڈالا عالمی برادری کی ناک کے نیچے ہزاروں فلسطینیوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا سینکڑوں بے گناہ فلسطینی اپنے ناکردہ گناہ کی پاداش میں جیلوں میں اسرائیلی مظالم کا شکار ہو رہے ہیں اسرائیل میں خوشخالی اسلئے ہے کہ امریکا سے اسے ہر سال 3بلین سے زیادہ امداد ملتی ہے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے تحقیقی ادارے کی طرف سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل بہت جلد غزہ کی پٹی میں زیر زمین سرنگوں کے خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی تیاری کر چکا ہے اسرائیل کے ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں واقع سرنگوں کے ذریعہ حماس جدید ہتھیار اسمگل کر رہی ہے اور یہ ہتھیار حماس کے رضا کاروں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں جبکہ گذشتہ دنوں واشنگٹن میں امریکا اور اسرئیل کے بیچ ایک اور اہم دس سالہ دفاعی معاہدہ پر دستخط کئے گئے ہیں جس کے مطابق امریکا ہر سال اسرئیل کو 3بلین ڈالرز کا اسلحہ اور جدید دفاعی سامان فراہم کریگا یہ امداد دیگر معاہدہ کے علاوہ ہے جو اسرائیل پہلے ہی حاصل کر رہا ہے اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ چونکہ خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور عدم استحکام کی وجہ اسرائیل کی دفاع کو بہتر بنانے کیلئے اس نوعیت کا معاہدہ ضروری تھا۔ حالانکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اسرائیل ہر قسم کی جدید اسلحہ کی تیاری میں خود کفیل ہے اسرائیل ہر سال 10بلین ڈالرز سے زائد مالیت کا اسلحہ فروخت کرتا ہے حال ہی میں اسرائیل نے بھارت کو 2بلین ڈالرز کی مالیت کا جدید دفاعی سازو سامان فراہم کیا یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسرائیل کے پاس 200سے زائد ایٹم بم موجود ہیں اس کے علاوہ مختلف باوثوق ذرائع گذشتہ ایک عرصے سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسرائیل نے 1960میں مہلک ترین حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری شروع کر دی تھی اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے جینیوا پروٹوکول سمیت کسی بھی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں جس سے اسکی اسلحہ سازی پر پابندی عائد ہونے کا خدشہ ہو۔ 
اصل حقیقیت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اسوقت واحد طاقت ہے جس کے پاس جدید اسلحہ، ایٹم بم اور مہلک ہتھیار موجود ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑی طاقتون کے پروں کے نیچے اسرائیل عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے اسکے باوجود ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل نے اسرائیل کو اپنی لسٹ میں 30ویں نمبر پرک رکھتے ہوئے کرپشن سے پاک ملک قرار دیا ہے انڈیا کو 72ویں نمبر پر اسلئے رکھا گیا کہ اسکی اسرائیل اور امریکہ سے اچھے تعلقات ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کا آخر کیا معیار ہے؟ جس کی بنیادوں پر وہ کسی ملک کو کرپٹ قرار دے ان رپورٹوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے جو ترقی پذیر ممالک ہیں جن کے پاس جدید اسلحہ ہے جو دنیا میں جنگوں کی بنیاد ڈالتے ہیں جو بے گناہوں اور معصوموں کو کھلے عام ہلاک کرتے ہیں وہ کرپشن سے پاک ہیں جبکہ اسکے برعکس پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک جو اپنی دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی لسٹ میں کرپٹ شمار کئے جاتے ہیں اس تنظیم کو حقائق اور سچائی سے کام لینا چاہئیے حقائق پر پردہ نہیں ڈالنا چاہئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی رپورٹ جانبداری پر مبنی ہے اگر یہ تنظیم بڑی طاقتوں کی امداد پر چل رہی ہے تو یہ تنظیم کبھی بھی غیر جانبدارانہ رپورٹ پیش نہیں کر سکتی یہ بھی ایک کرپش کی بہت بڑی مثال ہے۔

0 comments

Post a Comment

Followers

Video Post